بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور کے دو اہم منحرف راہنمائوں نے لندن میں اعلان آزادی کرتے ہوئے ریاست کی جلاوطن حکومت کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔ 22327 مربع کلومیٹر رقبے اور تین ملین آبادی پر مشتمل ریاست منی پور ہندوستان کی پانچ سو باسٹھ پرنسلی اسٹیٹس یعنی شاہی ریاستوں میں شامل تھی۔ یہ وہ ریاستیں تھیں جو داخلی طور پر خود مختار تھیں اور تاج برطانیہ کے ساتھ ایک ڈھیلے ڈھالے معاہدات میں بندھی ہوئی تھیں گویا کہ ان ریاستوں پر برطانوی راج براہ راست قائم نہیں تھا۔ منی پور کے ایک طرف بھارت کی ریاست آسام، دوسری جانب ناگالینڈ تیسری سمت میزورام اور چوتھی جانب میانمر ہے۔ منی پور کو 1949میں بھارت میں ضم کیا گیا تھا۔ ناگالینڈ، میزورام اور آسام کی طرح منی پور میں بھی ابتدا ہی سے بھارت سے الگ ہونے کے جذبات تازہ اور جوان رہے اور انہی جذبات کو کچلنے کے لیے بھارت نے یہاں 1958سے افسپا کا ظالمانہ قانون نافذ کر رکھا ہے جس کے تحت بھارتی فورسز کو کشمیر کی طرح لامحدود اختیارات حاصل ہیں اور بھارتی فوجی ان اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔ اب میزورام کے دو اہم سیاسی راہنمائوں یامبیم بیرن اور نارنگیا سمرجیت سنگھ نے لندن میں ایک پریس کانفرنس میں منی پوری کی آزادی کا اعلان کیا اور علاقے کی آزاد جلاوطن حکومت قائم کی۔ یامبیم بیرن کو جلاوطن حکومت کی اسٹیٹ کونسل کا وزیر اعلیٰ جبکہ نارنگیا سمرجیت کو وزیر خارجہ بنایا گیا۔ ’’آزاد منی پور‘‘ کی جلاوطن حکومت کے ذمے داروں نے اقوام متحدہ سے فوری طور پر حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی آزاد ریاست کو اقوام متحدہ سے تسلیم کروانے کے لیے جلد ہی کارروائی کا آغاز کریں گے۔
منی پور کی بھارت نواز حکومت نے مذکورہ دونوں راہنمائوں کے خلاف مقدمات کا اندراج کر دیا ہے اور ان کے حوالے سے تحقیقات کا کام نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کو سونپ دیا گیا ہے۔ مذکورہ دونوں راہنمائوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ منی پور کے سابق مہاراجا یسہیمبا سنجاوبا کی اشیرباد سے یہ اعلان کر رہے ہیں مگر مہاراجا نے اس اعلان سے لاتعلقی کا یہ کہہ کر اظہار کیا کہ مذکورہ دونوں راہنما ان سے یہ کہہ کر گئے تھے کہ وہ برطانیہ منی کے تاریخی نوادرات اور دستاویزات لانے جا رہے ہیں اور ان سے اعلان آزادی کی بات نہیں کی گئی تھی۔ مہاراجا کا یہ موقف ظاہر ہے کسی دبائو کا نتیجہ ہو سکتا ہے کیونکہ مہاراجا آدھا سچ بول گئے ہیں کہ دونوں راہنما برطانیہ جانے سے پہلے ان سے ملے تھے۔ منی پور کا اعلان آزادی اور جلاوطن حکومت کا قیام ایک ایسے وقت میں ہوا جب بھارت کا یہ پورا علاقہ اور کئی ریاستیں شدید بے چینی کا شکار ہیں۔ منی پورکی سرحدی ریاست ناگالینڈ میں بھی الگ پرچم اور الگ آئین کے مطالبے کی تحریک زوروں پر ہے اور بھارتی حکومت اس تحریک کے راہنمائوں کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہے۔ اس کے علاوہ دوسری ریاستوں خالصتان، ناگالینڈ، میزورام اورنا چل پردیش، میگھالہ، تری پورہ، چھتیس گڑھ اور اڑیسہ میں بھی آزادی کی لہریں زور پکڑ رہی ہیں۔ خالصتان تحریک بین الاقوامی پر دنیا کو اپنی جدوجہد کا مرکز بناکر بھارت سے الگ ہونے کے لیے ایک عالمی ریفرنڈم کے انعقاد پر کام کر رہی ہے بھارت کی مذکورہ بالا ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں تو دہائیوں سے چل ہی رہی ہیں مگر کسی ریاست کی جلاوطن حکومت کے قیام کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
1990 میں جب کشمیر میں مسلح تحریک تیز ہو رہی تھی اور عالمی رائے عامہ پوری طرح کشمیر کے حالات کی جانب متوجہ ہو رہی تھی تو جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ امان اللہ خان نے مظفرآباد میں پورے کشمیر کی ایک جلاوطن حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کو زیادہ پزیرائی نہیں ملی تھی کیونکہ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ آزادکشمیر حکومت کی موجودگی میں کسی نئی جلاوطن حکومت کا قیام ایک غیر ضروری سیاسی قدم ہے۔ یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پانچ اگست کو بھارت نے متحدہ ہندوستان کی ہی ایک پرنسلی اسٹیٹ، ریاست جموں وکشمیر کے الگ وجود اور شناخت کی آخری علامتوں جھنڈے، آئین اسمبلی پر فیصلہ کن وار کرکے ریاست کو یونین ٹیریٹری قرار دیا ہے اور 31اگست سے بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ نافذ العمل بھی ہوچکا ہے۔ بھارتی حکومت کے اس فیصلے نے اپنی شناخت کے حوالے سے حساس اور اس کے لیے باقاعدہ طور پر لڑنے والی ریاستوں کو بھی خوف زدہ کر دیا ہے۔ خود مودی حکومت وقتی طور پر انہیں یقین دلارہی ہے کہ کشمیر جیسا انجام ان میں سے کسی ریاست کا نہیں ہوگا اس کے باوجود ہندوتوا سیاست اور ’’ایک ودھان ایک پردھان‘‘ کی ذہنیت کے ماحول میں الگ شناختوں کا وجود گوارا نہیں۔ کشمیر بھارت کے اس فیصلے کو یکسر مسترد کر چکا ہے۔ آزادی پسند اور کشمیری عوام کا مرکزی دھارا تو مدت دراز سے بھارت کے غیر قانونی تسلط کو مسترد کیے ہوئے ہے اب بھارت نواز سیاست دان بھی بھارت کے خلاف ہوچکے ہیں اور بھارتی اقدام کی مخالف کی پاداش میں انہیں گرفتار اور نظر بند کر دیا گیا ہے۔
بھارت نے اپنے طور پر کشمیر کو ہضم کر لیا مگر کشمیری عوام اور پاکستان کشمیر کو بھارت کے لیے ’’گرم آلو‘‘ بنانا چاہتے ہیں تاکہ منہ میں ٹھونسے گئے اس آلو سے بھارت کا منہ اس قدر جلنے لگے کہ وہ اسے اُگل دینے پر مجبور ہو۔ پانچ اگست کے بعد کشمیر بھارت کے لیے بے چینی اور مشکلات کا باعث بن کر رہ گیا، عالمی سطح پر بھارت کی سبکی ہو رہی ہے۔ اندرونی طور پر بھارت کشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے اور کشمیریوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔ کشمیر کے تشخص پر حملے نے آزادی اور الگ تشخص کے لیے لڑنے والی دوسری ریاستوں کو بھی خوفزدہ کر دیا ہے اور وہ زیادہ تیزی کے ساتھ مزاحمت کو آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ منی پور کا اعلان آزادی بھی کشمیر کے حالات سے پیدا ہونے والے خوف کا شاخسانہ ہے۔ بھارت جس کشمیر کو اپنے طور پر ہضم کر بیٹھا ہے وہ بھارت کے پیٹ میں نئے بل ڈال کر کئی نئی بے چینیوں کا باعث بنتا جا رہا ہے۔