ہم کھڑے ہوئے ہیں

230

بھارت کے زیر تسلط کشمیر سے ’’خیر‘‘ کی ہی خبریں آرہی ہیں۔ سکون ہے، اطمینان ہے، امن ہے اور ہر جانب چین ہی چین ہے بلکہ ’’نیرو‘‘ مسلسل چین کی بنسی بجارہا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم کھڑے ہوئے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مسلسل91 ویں روز بھی فوجی محاصرے اور مواصلاتی ذرائع کی بندش کی وجہ سے وادی کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں معمولات زندگی مفلوج ہیں۔ انٹرنیٹ اور پری پیڈ موبائل فون سروسز معطل اور پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہے۔ 5 اگست کو دفعہ 370 کے خاتمے سے اب تک مقامی صنعت کو ایک ارب ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے وادی کشمیر میں آئی ٹی صنعت کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور آئی ٹی سے وابستہ 25 ہزار پیشہ ور افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔ مواصلاتی نظام کی بندش سے کشمیری شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں جبکہ گھروں میں ادویات اور کھانے کا ذخیرہ ختم ہونے کے باعث موت آہستہ آہستہ کشمیریوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان سب حالات کے باوجود کشمیریوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ ہم کھڑے ہوئے ہیں۔ مزید برآں شمالی کشمیر کے ضلع بارہ مولا میں سیکورٹی فورسز نے سوپور قصبے سے متصل علاقے براٹھ کلاں میں سرچ آپریشن کے دوران کئی نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔ مقامی پولیس کے مطابق سوپور سے گرفتار نوجوا نوں کو حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کرلیا گیا ہے۔ مگر کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ مطمئن رہیں اس لیے کہ ہم تن کر کھڑے ہوئے ہیں اور ساری صورت حال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ ’’مالیخولیا‘‘ ایک ایسی دماغی خرابی ہے جس کا مریض پاگل ہوتے ہوئے بھی نہ تو پاگل لگتا ہے اور نہ ہی کوئی پاگل خانہ اسے حقیقی پاگل سمجھ کر اپنے پاگل خانے میں رکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ گھر والے تو ویسے ہی اپنے کسی عزیز کے لیے یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ان کا کوئی بھائی، بہن، ماں، باپ یا لخت جگر پاگل خانے میں داخل کیا جائے۔ ایسے مریض کی ہر بات ایک نارمل انسان ہی کی طرح ہوتی ہے۔ وہی کھانا پینا، وہی معمول کے کام، وہی معمول کے مطابق سارے امور انجام دینا لیکن اس کے باوجود بھی وہ نارمل انسان نہیں ایک خطرناک پاگل ہی ہوتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اگر اس پر کوئی ضد سوار ہوجائے اور اسے پورا نہ کیا جائے تو وہ جنونی ہو جاتا ہے اور ایک ہنگامہ کھڑا کردیتا ہے۔ یہ ہنگامہ کوئی سنگین صورت حال بھی پیدا کرسکتا ہے اسی لیے گھر والے اس کی ضد پوری کر کے اپنی جان جھڑا لیتے ہیں۔ جونہی ضد پوری ہوتی ہے مریض بالکل نارمل ہو جاتا ہے۔ اس مریض کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ضد پوری ہوجانے کے فوراً بعد اس سے بڑی فرمائش سامنے آ جاتی ہے اور یوں ہر فرمائش پوری ہونے کے بعد ایک اور فرمائش سامنے آجاتی ہے اور کسی بھی فرمائش پر تاخیر مریض کے جنوں کو بڑھا دیتی ہے اور ایک دن ضرور ایسا آتا ہے کہ یاتو مریض کے ہاتھوں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ جاتا ہے یا پھر اسے پاگل خانے کی سپرد ہی کرنا پڑ جاتا ہے۔
بھارت بھی اس وقت ’’مالیخولیائی‘‘ مریض بنا ہوا ہے۔ پہلے وہ صرف کشمیر میں افواج ہی رکھے ہوئے تھا۔ پھر اس نے وہاں ظلم و ستم کے دروازے کھولنا شروع کردیے۔ جواب ملنے پر جنون میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پھر 5 اگست 2019 کو کشمیر کا آئین ہی منسوخ کرنے کی تجویز اپنی اسمبلی میں پیش کی۔ احتجاج پر کرفیو کا نفاذ عمل میں آگیا۔ مخالفت ہوئی تو احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلائی گئیں۔ غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تو کشمیر کو باقائدہ اپنا حصہ بنالیا گیا۔ کشمیر کا آئین منسوخ کردیا گیا، علاقوں کو وفاق کے زیر نگرانی دیدیا گیا اور آج تین ماہ سے بھی زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود مقبوضہ کشمیر سے کرفیو نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے کشمیری زندہ ہونے کے باوجود بھی زندہ کہلانے کے قابل نہیں رہے ہیں اور ہر آنے والا دن ان کو موت سے قریب تر کرتا چلا جارہا ہے لیکن پھر بھی ان کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم کھڑے ہوئے ہیں۔
ایک آزاد ریاست کو اپنے قانونی جبڑوں میں پوری قوت سے دبانے کے باوجود بھی اس کے اختلاج میں کسی بھی قسم کے افاقے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ خبروں کے مطابق پاکستان نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں وکشمیر کو اپنا حصہ اور آزاد کشمیر کو متنازع قرار دینے کا بھارتی نقشہ مسترد کر دیا۔ ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ بھارتی بھونڈی کوشش سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہے۔ بھارت ایسی حرکتوں سے دنیا کو بے وقوف نہیں بنا سکتا، کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، بھارتی کوشش غیر قانونی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ ایسی کارروائیوں سے کشمیریوں کا حق خودارادیت متاثر نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔ یعنی وہی بات کہ ہرخواہش کے اختتام پر ایک اور خواہش کا سامنے آنا۔ اپنے زیر تسلط کشمیر پر ابھی مکمل دسترس بھی حاصل نہیں ہوئی تھی کہ بھارت نے وہ کشمیر جو پاکستان کے زیراثر ہے اور جہاں کے باسی نہایت امن و سکون کی زندگی گزار رہے ہیں، اس کو بھی اپنے نئے نقشے میں شامل کر لیا ہے۔ بھارت کی جانب سے جاری کیا جانے والا بھارت کا نیا نقشہ کہہ رہا ہے کہ گلگت اور بلتستان بھی بھارت ہی کا حصہ ہے جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے شدید احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت کی یہ کوشش سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہے۔
پاکستان بات تو ٹھیک ہی کر رہا ہے لیکن اس موقع پر میں اپنی ہی حکومت سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ مقبوضہ کشمیر کیا متنازع علاقہ نہیں تھا؟۔ کیا وہاں بھارت کی فوج کشی، قتل عام، ہر قسم کا ظلم و تشدد اور درندگی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں تھی اور کیا بھارت کے سارے اقدامات سلامتی کونسل کی قراردادوں کے عین مطابق ہیں؟۔ ایک بات یہ بھی پوچھنی تھی کہ کیا کشمیر وہی ہے جو پاکستان کے زیر اثر ہے یا کشمیر ایک ایسی آزاد ریاست ہے جو بھارت کے پاس بھی ہے اور کچھ پر پاکستان کا کنٹرول ہے؟۔ اگر کشمیر وہی ہے جو پاکستان کے زیر اثر ہے تو بھارت نے یقینا زیادتی سے کام لیا ہے لیکن اگر کشمیر، مقبوضہ یا آزاد، پورے کا پوارا کشمیر ہی ہے تو پھر بھارت کا نقشہ (جان کی امن پاؤں تو) ٹھیک ہی ہے اس لیے کہ ہم (پاکستان) نے بھارت کا نقشہ بگاڑنے کی اب تک کوئی عملی جدو جہد کی ہی نہیں۔
ایک آخری بات، جب تک کشمیر (مقبوضہ) بھارت کا ’’قانونی‘‘ حصہ نہیں تھا اور ہماری ’’شہ رگ‘‘ کہلاتا تھا، مجھ کم عقل کے مطابق ایک ایسی سرزمین تھا جس پر بھارتی جارحیت کے مقابلے میں ہم اگر اپنی افواج وہاں اتار دیتے تو دنیا کا کوئی ملک بھی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا، بین الاقوامی قانون کے مطابق پاکستان اس بات کا استحقاق رکھتا تھا کہ وہ بھارت کی جارحیت کے خلاف ایک آزاد ریاست میں اپنی افواج بھی اتار سکتا تھا جبکہ کشمیری ہمیں مدد کے لیے پکار بھی رہے تھے۔ اب جبکہ بھارت نے قانونی طور اس کشمیر کو اپنا حصہ بنالیا ہے تو کیا پاکستان اب کشمیر میں اپنی فوجیں اتار سکتا ہے؟۔ کیا اب وہاں فوج بھیجنا دو ممالک کی جنگ نہیں سمجھا جائے گا؟۔ کام بہت سہل تھا جس کو دشوارتر کر لیا گیا ہے بلکہ ناممکن بنا لیا گیا ہے اس لیے اب اس بات پر واویلا کہ بھارت نے گلگت اور بلتستان کو اپنے نقشے میں کیوں ظاہر کیا ہے، ایک فضول سے احتجاج سے زیادہ کچھ اور نہیں لگتا اس لیے کہ کشمیر پورے کا پورا کشمیر ہے اور آج سے کئی دھائیوں پہلے تک پاکستان بھی ’’پورے‘‘ کشمیر کو اپنے نقشے میں دکھاتا رہا ہے۔ بات نقشے میں دکھانے یا نہ دکھانے کی نہیں اس لیے کہ پاکستان کے پرانے نقشوں میں بھارت کی دو اور ریاستیں بھی ایک طویل عرصے تک متنازع علاقوں میں دکھائی جاتی رہی تھیں لیکن مقبوضہ کشمیر سمیت دو اور متنازع ریاستیں کب اور کیوں نقشوں سے مٹادی گئیں، اس کا جواب شاید ہی پاکستان میں کوئی ادارہ دینے کے لیے تیار ہو۔ مختصراً یہ کہ جو جو علاقے، بشمول مقبوضہ کشمیر، بین الاقوامی عدالت میں زیر غور تھے وہ سب آہستہ آہستہ دنیا کے نقشے سے معدوم ہوکر بھارت میں شامل ہوتے جارہے ہیں اور پاکستان ان تمام باتوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتا چلا جارہا ہے تو مجھے یہ کہنے اور سجھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ گلگتی اور بلتی بھی اب اپنے آپ کو مہمان ہی سمجھیں لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہم مسلسل کھڑے ہوئے ہیں اور قیامت تک کھڑے رہیں گے۔