آئی ایم ایف کا اطمینان

212

آج کل آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان کے دورے پر ہے اور اس مرتبہ سیکورٹی کے پیش نظر اپنا کام وزارت خزانہ کے دفاتر میں جا کر کرنے کے بجائے ہوٹل کے کمرے میں ہی جائزہ لے رہا ہے۔ وزارت خزانہ، ایف بی آر اور دوسری متعلقہ وزارتوں کے اہلکار و افسران آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے میں مصروف ہیں تا کہ 6 ارب ڈالر کے قرضے کی دوسری قسط کے 453 ملین ڈالر پاکستان کو مل سکیں۔
اسی سلسلے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے تمام ارکان اپنے اپنے کمیٹی چیئرمین کے ساتھ آئی ایم ایف سے ملے اور پاکستان کی معاشی صورتِ حال کا وفد کے سامنے نقشہ پیش کیا اور یہ نقشہ وہی ہے جو آج ہر پاکستانی کے سامنے ہے۔ دونوں کمیٹیوں کے ارکان نے وہی بات کی جو تمام ممتاز ماہرین معاشیات اور کاروباری افراد ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں ۔ ان اونچی شرح سود کی موجودگی میں نہ کاروبار، نہ صنعت اور نہ سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ چناں چہ مزید روزگار کے مواقعے پیدا نہیں ہوسکتے اور اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی قیمتوں میں 50 سے 80 فی صد اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے اور تمام ضروری اشیا کی قیمتوں میں 15 سے 20 فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیکس کے مطابق ماہ اکتوبر میں افراط زر کی شرح 11 فی صد رہی۔ چناں چہ امور خزانہ کی دونوں کمیٹیوں کا آئی ایم ایف سے مطالبہ یہ تھا کہ پاکستانی حکومت کو آپ نے جو اہداف دیے ہیں مثلاً ٹیکسوں کا ہدف پانچ ہزار پانچ سو ارب روپے، ان اہداف میں کمی کی جائے۔ دوسرے معاشی اصلاحات کا جو کام آپ نے حکومت کو سونپا ہے اس کی رفتار کو آہستہ کیا جائے کیوں کہ معاشی اصلاحات ایک سست رفتار عمل ہے اور اسی طرح اپنی شرائط پر عمل کرانے میں آپ جس سختی سے کام لے رہے ہیں وہاں ہلکا ہاتھ رکھا جائے۔
آئی ایم ایف کا ردعمل یہ تھا کہ پاکستان حکومت جو کچھ 16 یا 18 ماہ سے کررہی ہے وہ ہم نے نہیں کیا وہ پاکستان کا اپنا عمل ہے دوسرے یہ کہ ٹیکس پالیسی، شرح سود پالیسی اور زرمبادلہ کی قدر کے معاملے میں حکومت پاکستان نے جو اقدامات کیے ہیں اُن سے ہم مطمئن ہیں اور آئندہ آنے والے دنوں میں حالات مزید بہتر ہوجائیں گے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ کہا گیا کہ تجارتی خسارہ اور رواں مالی خسارہ (Current Account Defict) میں نمایاں کمی آئی ہے، روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے، اسٹاک مارکیٹ میں اعتماد کی فضا بحال ہوئی ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال ٹیکس وصولی میں 16 فی صد اضافہ ہوا ہے، برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے، بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بہتر ہوا ہے۔ یہ تمام باتیں کسی نہ کسی حد تک درست ہیں مگر پاکستانی معیشت، پاکستانی عوام اور پاکستانی صنعتکار کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ پاکستانی معیشت کو اس طرح کی مجموعی قومی پیداوار (Gross Domestic Product) میں شرح نمو ڈھائی سے 3 فی صد رہ گئی ہے جو ایک ملک کی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ہے جس کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں، یہ شرح نمو انتہائی پسماندہ ممالک کی ہوا کرتی ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں یہ شرح 5 فی صد سے لے کر 8 یا 9 فی صد تک جاتی ہے۔ پاکستانی عوام نے اس کی قیمت اس طرح ادا کی ہے کہ کئی لاکھ افراد روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جو برسرروزگار ہیں وہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، دو وقت کی روٹی اُن کے لیے مشکل ہوگئی ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ حکومت نے ایک نئی غیر یقینی صورت حال پیدا کردی ہے اور وہ یہ کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جگہ پاکستان ریونیو اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے اس سے پوری ٹیکس مشینری میں ہلچل مچ گئی ہے اور ایف بی آر سے منسلک 23 چیف کمشنر سے ڈھکے چھپے الفاظ میں ہڑتال کی دھمکی دے دی ہے، یہ چیف کمشنرز ریجنل ٹیکس آفیسرز کے ہیڈ ہوتے ہیں، اس طرح یہ نظر آرہا ہے ٹیکس وصولی کا کام رک جائے گا اور ٹیکسوں کے اہداف کے قریب پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔ ایف بی آر کے دونوں ونگ، کسٹم اور ان لینڈ ریونیو، دونوں اسی حکومتی اقدام سے نالاں نظر آتے ہیں، اسی طرح حکومت سروسز پر ٹیکس کی وصولیابی کو فیڈرل گورنمنٹ کے تحت کرنا چاہتی ہے جب کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت یہ معاملہ صوبوں کے تحت آتا ہے اس طرح حکومت کیا دستور کی خلاف ورزی کرے گی یا آئین میں ترمیم کرے گی اور جب تک یہ معاملہ طے نہیں ہوجاتا غیر یقینی کی فضا برقرار رہے گی جس کا انتہائی منفی اثر ٹیکسوں کی وصولی پر ہوگا۔ گزشتہ 18 ماہ میں غیر یقینی کی فضا نے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے، چناں چہ یہ غیر یقینی کی فضا ختم ہونی چاہیے۔