عقیدۂ نبوت ورسالت حصہ اول

277

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ’’عقیدۂ نبوت ورسالت‘‘ ہے۔ رسول کے لغوی (Linguistic) معنی ہیں: ’’پیغام پہنچانے والا‘‘ اور شریعت کی اصطلاح میں رسول اُسے کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچائے۔ لفظِ نبی ’’نَبَاٌ‘‘ سے مشتق ہے، اس کے معنی خبر کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں نبی اللہ تعالیٰ کے اُس منتخب بشر کو کہتے ہیں، جسے اُس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا ہو، ’’نَبِیٌّ‘‘ کے معنی ہیں: ’’غیب کی خبر دینے والا‘‘ اور ’’نُبُوَّت‘‘ کے ایک معنی ہیں: ’’رفعت وبلندی‘‘ اور نبی اللہ تعالیٰ کے فضل سے رفیع الشان ہوتا ہے۔ نبی صرف بشر اور مرد گزرے ہیں، نہ کوئی عورت ’’نَبِیَّہْ‘‘ ہوئی اور نہ کوئی جنّ نبی ہوا، قرآنِ کریم کی کئی آیات میں اس کی صراحت ہے۔ انبیاء کی تعداد نہ قرآنِ کریم میں اور نہ کسی حدیثِ صحیح صریح میں تعیین کے ساتھ مذکور ہے، انبیائے کرام ورُسلِ عظام علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ صحیفوں کی تعداد کے بارے میں روایات ہیں، لیکن تعداد کی قطعی تعیین کے لیے اُن روایات پر عقیدے کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی، کیونکہ عقیدے کے اثبات کے لیے دو شرطیں ہیں: (۱) کلام کا ثبوت قطعی ہو، (۲) اس کی اپنے معنی پر دلالت بھی قطعی ہو، یعنی دوسرے معانی کا احتمال نہ رکھے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور ہم نے ایسے رسول بھیجے جن کا تذکرہ اس سے پہلے ہم آپ کو بیان کرچکے اور ایسے رسول بھیجے جن کا تذکرہ ہم نے (آج تک) آپ کے سامنے نہیں کیا، (النساء: 164)‘‘۔ درجِ ذیل چھبیس انبیائے کرام علیہم السلام کے اسمائے مبارکہ قرآنِ کریم میں مذکورہیں:
سیدنا آدم، سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل، سیدنا اسحاق، سیدنا یعقوب، سیدنا یوسف، سیدنا موسیٰ، سیدنا ہارون، سیدنا شعیب، سیدنا لوط، سیدنا ہود، سیدنا داود، سیدنا سلیمان، سیدنا ایوب، سیدنا زکریا، سیدنا یحییٰ، سیدنا عیسیٰ، سیدنا الیاس، سیدنا الیَسَع، سیدنا یونس، سیدنا ادریس، سیدنا ذوالکفل، سیدنا صالح، سیدنا عزیر اور سیدنا محمد رسول اللہ علیہم الصلوٰۃ والسلام۔ ان پر تعیین کے ساتھ نام بہ نام ایمان لانا اور دیگر انبیائے کرامؑ پر اجمالاً ایمان لانا واجب ہے، بس اتنا کہنا کافی ہے :’’اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ‘‘، اگر ہم تعداد معیَّن کردیں اور اصل تعداد زیادہ ہو تو بعض نبیوں کا انکار لازم آئے گا اور اگر حقیقی تعداد کم ہو تو غیرِ نبی کو نبی ماننا لازم آئے گا اور یہ دونوں صورتیں
کفر ہیں۔ ان میں سے پانچ انبیائے کرام اولوالعزم ہیں: سب سے افضل خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہؐ ہیں، پھر بالترتیب سیدنا ابراہیم خلیل اللہ، سیدنا موسیٰ، سیدنا عیسیٰ اور سیدنا نوح علیہم الصلوات والسلام ہیں۔ اُوْلُوالْعَزم کے معنی ہیں: ’’عزیمت واستقامت اور رفعت وعظمت والے‘‘۔ نبی اور رسول عام طور پر ہم معنی استعمال ہوتے ہیں، لیکن ان میں آپس میں معنوی فرق موجود ہے۔ رسول اُسے کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے نئی شریعت عطا کر کے بھیجا ہو، اُس میں سابق شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کیا گیا ہو یا بعض احکام کا اضافہ کیا گیا ہو یا اُسے کسی خاص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہو، سب سے پہلے صاحبِ شریعت سیدنا نوحؑ تھے، اس لیے کہا جاتا ہے: ہر رسول نبی ہوتا ہے اور لازم نہیں کہ ہر نبی رسول ہو۔ انبیائے کرامؑ تمام مخلوق حتیٰ کہ رُسُلِ ملائکہ سے بھی افضل ہیں، نبی کی تعظیم فرضِ عین ہے اور کسی بھی نبی کی توہین یا تکذیب کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ پر نبی بھیجنا واجب نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی بھی چیز واجب نہیں ہے، اُس نے اپنے فضل سے بعض امور کو اپنے ذمۂ کرم پر لیا ہے، مثلاً فرمایا: ’’زمین پر چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے، (ہود: 6)‘‘۔
نبوت ورسالت کی حکمت اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائی: ’’ہم نے خوش خبری دینے اور ڈر سنانے والے رسول بھیجے تاکہ رسولوں (کی بعثت) کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کی بارگاہ میں کوئی حجت باقی نہ رہے، (النساء: 165)‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ رسولوں کے آنے کے بعد نوعِ انسانی کے کسی فرد کے پاس کفروشرک اور ضلالت پر قائم رہنے کے لیے کوئی جواز باقی نہیں رہا کہ وہ اللہ کی عدالت میں یہ عذر پیش کرسکیں کہ ہمیں کوئی راہِ حق بتانے والا نہ تھا۔
نبی کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر وحی کا نزول فرماتا ہے اور اس کی صورتیں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمادی ہیں: ’’اور بشر کی یہ مجال نہیں کہ اللہ اُس سے کلام فرمائے ماسوا وحی کے یا پردۂ عظمت کے پیچھے سے کلام فرمائے یا وہ کوئی فرشتہ بھیجے کہ وہ اس کے حکم سے جو اللہ چاہے وحی کرے، (الشوریٰ: 51)‘‘۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ عیاذاً باللہ! اللہ تعالیٰ براہِ راست وحی نازل کرنے پر قادر نہیں ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ اُس نے عام طور پر بشر میں اس کی استعداد نہیں رکھی، تاہم معراج النبی کا واقعہ ایسا ہے کہ اس نے سیدنا محمد رسول اللہؐ پر تجلِّی ذات فرمائی اور براہِ راست وحی فرمائی، لیکن عام ضابطہ وہی ہے جو مذکور ہ بالا آیت میں بیان فرمایا، مثلاً: سیدنا موسیٰ ؑ سے درخت کے واسطے سے کلام فرمایا اور فرشتے کے ذریعے وحی نازل فرمانا ہمیشہ سے سنتِ الٰہیہ رہی ہے، یہاں اصطلاحِ شریعت کے مطابق وحی مراد ہے، وحیِ نبوت کی صورتیں احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہیں اور قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ملائکہ کو بھی وحی کرنے کا ذکر ہے۔
لغوی معنی کے اعتبار سے وحی کے معنی ہیں: دل میں کسی بات کا القا کردینا، اس معنی میں شیاطین لوگوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خفیہ طریقے سے باتیں القا کرتے ہیں اور اسی طرح اپنے چیلوں کے ذہنوں میں بھی باتیں ڈالتے ہیں، کاہنوں اور ساحروں کو بھی شیاطین القا کرتے ہیں اور لغوی معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمِّ موسیٰ، شہد کی مکھی اور زمین کو بھی وحی کرنا یعنی ذہن میں بات ڈالنا یا حکم دینا ثابت ہے، اس کے لیے بھی قرآنِ کریم میں وحی کا کلمہ آیا ہے۔
نبوّت کا مدار علم، عقل، کسب، عبادت وریاضت اور مجاہدے پر نہیں ہے،بلکہ یہ ایک وہبی منصب ہے، یعنی خالصۃً اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے اس کے لیے منتخب فرماتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کس جگہ اپنی رسالت کو رکھے گا، (الانعام: 124)‘‘۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ جسے وہ اس منصب کے لیے منتخب فرماتا ہے، اُسے تمام مخلوق سے اعلیٰ علمی، عقلی اور فکری صلاحیتوں سے سرفراز فرماتا ہے، انہیں غیر معمولی تدبّر، قوتِ فیصلہ اور نورِ بصیرت عطا فرماتا ہے، غیرِ نبی کتنا ہی صاحبِ عقل وفکر ہو، اُسے نبی سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی، عقلا وفلاسفہ کی باتیں ظَنّ وتخمین اور قیاسات کی بنیاد پر ہوتی ہیں، وہ قطعی نہیں ہوتیں، اُن کے اگر کسی حد تک درست ہونے کا امکان ہے، تو خطا، فکری کجی اور ضلالت کا امکان بھی رہتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اور اللہ نے اُسے علم کے باوجود گمراہی میں چھوڑ دیا اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، پس اللہ کے (گمراہی میں چھوڑنے کے) بعد کون ہے جو اُسے ہدایت دے، (الجاثیہ: 23)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقل کسی درجے میں رہنمائی کرسکتی ہے، لیکن ہدایت کے لیے عقل پر کلی انحصار نہیں کیا جاسکتا، ورنہ عُقَلا وحُکَماء میں سے کوئی گمراہ نہ ہوتا، پس ہدایت کا قطعی اور ہر شک وشبہے سے پاک ذریعہ صرف اور صرف وحیِ نبوت ہے۔
نبی معصوم ہوتا ہے، عصمت نبی اور فرشتے کا خاصّہ ہے، ان کے سوا کوئی معصوم نہیں، عصمتِ نبوت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی معصیت سے اُن کی حفاظت کا وعدہ فرمالیا ہے، لہٰذا اُن سے گناہ کا صادر ہونا شرعاً مُحال ہے، پس نبی نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد کبائر سے پاک ہوتا ہے اور مختار قول کے مطابق نبوت سے پہلے بھی عمداً صغائر سے پاک ہوتا ہے، وہ احکام جو اللہ تعالیٰ نے امت تک پہنچانے کے لیے نبی کو تفویض کیے ہیں، ان کے ابلاغ میں نبی قطعی طور پر معصوم ہوتا ہے اور اس میں خطا ونسیان کا بھی کوئی احتمال نہیں ہوتا، اگر احکامِ تَبْلِیْغِیَّہ میں خطا ونسیان کا احتمال تسلیم کرلیا جائے تو شریعت کی بنیاد ہی منہدم ہوجائے گی، لہٰذا اس مسئلے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ نبوت کی صفت جاریہ مُسْتَمِرَّہ ہے، یعنی نبی سے نبوت کا زوال نہیں ہوتا اور جونبی سے نبوت کا زوال جائز جانے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
(جاری ہے)
مفتی منیب الرحمن
نبی کو اللہ تعالیٰ وجاہت سے نوازتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اے مومنو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیت پہنچائی تھی، تو اللہ نے موسیٰؑ کو اُن کی تہمت سے بری کردیا اور وہ اللہ کے نزدیک وجاہت (عزت) والے تھے، (الاحزاب: 69)‘‘۔ چونکہ نبی امت کے لیے قُدوہ، مُقتدیٰ اور پیشوا ہوتا ہے، اس لیے اس کا معزز وباوقار ہونا منصبِ نبوت کا تقاضا ہے، سو یہ کہنا کہ ’’نبی اللہ تعالیٰ کے نزدیک (معاذ اللہ!) چوہڑے چمار کی مثل ہے‘‘۔ کھلی گمراہی ہے۔ نبی لوگوں کے درمیان رہتا ہے، سوتا جاگتا ہے، کھاتا پیتا ہے، بشری عوارض بھی اُس پر طاری ہوتے ہیں: جیسے صحت ومرض، خوشی اور غم کا لاحق ہونا، وفات پانا وغیرہ، لیکن نبی ایسے عوارض سے پاک ہوتا ہے جو انسانی شرَف ووقار کے منافی ہوں، جیسے: جذام یا برص جیسی قابلِ نفرت بیماریوں کا لاحق ہونا وغیرہ۔ نیز ہم ایسی روایات کو بھی رَد کرتے ہیں جو شانِ نبوت کے خلاف ہوں، جیسے: سیدنا ایوبؑ کے بارے میں یہ روایات کہ معاذ اللہ! انہیں ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی کہ لوگوں کو گھِن آتی تھی، اُن کے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے اور انہیں کوڑے کے ڈھیر پر ڈال دیا گیا تھا، البتہ انبیاء پر مصائب ومشکلات اور آزمائشوں کا آنا شانِ نبوت کے خلاف نہیں ہے، حال ہی میں ایک مشہور واعظ نے کہا: ’’(معاذ اللہ) یوسفؑ کا منہ کالا کر کے انہیں گدھے پر بٹھاکر گھمایا گیا ‘‘۔ یہ شانِ نبوت کے خلاف ہے اور نبی کے بارے میں ایسے ریمارکس دینے سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے، تاریخ میں ہر طرح کی روایات مل جاتی ہیں، لیکن دینی مُسَلَّمَات کے خلاف روایات کو رَد کردیا جائے گا، ایسی ہی روایات کو ’’اسرائیلیات‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور موجودہ تحریف شدہ تورات میں انبیائے کرامؑ کے بارے میں ایسی کئی روایتیں ہیں جو شانِ نبوت کے خلاف ہیں، اُن کو رد کیا جائے گا۔
(جاری ہے)