جوں جوں کرتار پور راہداری کھلنے کے دن قریب آرہے تھے اسی رفتار سے بھارتی حکومت اور میڈیا کا چہرہ لٹکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ صاف اندازہ ہورہا تھا کہ بھارتی حکومت، طاقتور ریاستی اداروں کو یہ قدم پسند نہیں آیا۔ اس ناپسندیدگی کے لیے بھارتی میڈیا میں ماتمی مجالس اور بین دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں۔ بھارت کا جو میڈیا کشمیر میں بھارت کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدامات کا ہمنوا اور مداح ہے وہی میڈیا کرتار پور راہداری کو پاکستان اور آئی ایس آئی کی سازش قرار دے رہا ہے۔ دنیا بھر کے سکھ اپنے اس مقدس مقام تک رسائی پر جشن منارہے ہیں۔ ان کے لیے یہ مقام اس لیے مقدس ہے کہ یہاں سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال گزارے تھے۔ سکھ بھارتی حدود سے اس گوردوارے اور مقام کو دوربین سے دیکھ کر سکون پاتے تھے۔ ان کے لیے یہ خواب اور خیال ہی تھا جسے وقت اور حالات نے حقیقت میں ڈھال دیا ہے۔ دس نومبر بہتر سال کے خواب کی تعبیر کا نام ہے۔ سکھوں کے لیے یہ روحانی تسکین اور سہولت انتہا پسند ہندو مائنڈ سیٹ کو پسند نہیں آئی۔ اس لیے وہ حیلوں بہانوں سے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ ماضی کے معروف کرکٹر اور حال کے سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو کرتاپور راہداری کھلنے کی ایک وجہ اور اہم کردار بن کر سامنے آرہے ہیں۔ دنیا بھر کے سکھ اسے سدھو عمران دوستی کا شاخسانہ اور سدھو کا تحفہ سمجھ رہے ہیں۔ عمران خان کی تقریب حلف برداری میں سدھو بھی شریک تھے۔ اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک پرجوش اور بھارت میں متنازع بننے والے معانقے کے بعد انہیں بتایا تھا کہ پاکستان سکھوں کے لیے کرتارپور راہداری کھولنے کو تیار ہے۔ سدھو نے دنیا بھر کے سکھوں کو یہ نوید سنائی تھی۔ اس کے بعد کرتار پور راہداری کھولنے کے منصوبے پر پاکستان کی طرف سے تیزی سے کام کا آغاز کیا گیا۔ بھارت نے قدم قدم پر اس کام میں رکاوٹیں ڈال کر اپنی ناگواری کا اظہار کیا۔ یہاں تک تعمیراتی کام کے افتتاح کی تقریب میں بھارت سے کسی قابل ذکر شخصیت نے شرکت نہیں کی۔ پاکستان یک طرفہ طور پر اس راہ پر آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک بھارت کے پاس پیچھے ہٹ کر سکھوں کی ناراضی کا سامنا کرنے کے بجائے آگے کی جانب رینگنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور پھر کرتار پور راہداری کھولنے کے عملی مظاہرے کا دن بھی قریب آگیا۔ اب مشرق پنجاب کے مودی دوست وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کھل کر اس قدم کے خلاف بول پڑے ہیں۔ انہوں نے کرتار پور راہداری کے معاملے کو آئی ایس آئی کا پروجیکٹ قرار دے کر محتاط رہنے کو کہا ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ستر سال بعد پاکستان کو راہداری کھولنے کا خیال کیوں آیا۔ امریندر سنگھ کا کہنا تھا بطور سکھ یہ دن ان کے لیے تلخ وشیریں ملے جلے جذبات لیے ہوئے ہے۔ بطور سکھ ان کے لیے یہ خوشی کا مقام ہے مگر انہیں اس حوالے سے بہت سے خدشات بھی لاحق ہیں۔ اس کے پیچھے پاکستان کے گہرے مقاصد ہیں۔
ان مخالفانہ آوازوں کے ساتھ ہی بھارتی میڈیا کرتار پور راہداری کے حوالے سے پاکستان کے تیار کردہ ایک نغمے کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے جس میں بہت سے مناظر کے دوران ایک پوسٹر بھی نگاہوں میں گھوم جا تا ہے جس میں خالصتان ریفرنڈم 2020کی عبارت تحریر ہے اور پوسٹر کے بالائی حصے پر خالصتان تحریک کے تین اہم راہنمائوں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ، امریک سنگھ اور میجر جنرل صاحب سنگھ کی تصاویر ہیں۔ یہ تینوں راہنما 1984 میں دربار صاحب امرتسر پر بھارتی فوج کے بدنام زمانہ آپریشن بلو اسٹار میں مارے گئے تھے۔ خالصتان نواز سکھوں کے لیے یہ تینوں ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ بھارتی میڈیا نغمے میں اس پوسٹر پر اعتراض کرتے ہوئے اس خوف کا اظہار کر رہا ہے کہ پاکستان کرتاپور راہداری کو اگلے برس خالصتان ریفرنڈم کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ سکھوں کی پاکستان آمدو رفت سے ان کا مجموعی جھکائو پاکستان کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں سکھوں کی معقول تعداد بھارت سے ناراض اور نالاں ہیں۔ وہ آپریشن بلو اسٹار کے زخموں کو تازہ رکھے ہوئے ہے۔ امریکا برطانیہ اور کینیڈا سمیت بیرونی دنیا میں ان کے کئی گوردوارے خالصتان تحریک کے لیے آج بھی نظریاتی غذا فراہم کر رہے ہیں۔ کئی ایک گوردواروں میں بھارتی سفارت کاروں کا داخلہ ممنوع ہے۔ پاکستان نے اس ناراض کمیونٹی کے لیے بلاتخصیص نظریاتی اور سیاسی وابستگی مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں مگر بھارت کو اس میں بھی سیاست دکھائی دے رہی ہے۔