ہر چند روز یا مہینے پندرہ دن کے بعد مقتدرہ کی جانب سے وضاحتوں کا آنا معاملات کو مشکوک کر جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک طویل عرصے سے ہماری مقتدرہ سیاستدانوں، ٹی وی اینکروں، کالم نویسوں، تبصرہ و تجزیہ نگاروں، ادیبوں، شاعروں، یہاں تک کہ عام لوگوں کی تنقید کی زد میں ہے اور اب حقیقت یہ ہے کہ ملک کی حدود سے باہر نکل کر بین الاقوامی سطح پر بھی مقتدرہ پر سخت تنقید کی جانے لگی ہے۔ عسکری اداروں میں بھی بری فوج اور اس کے سربراہ یا ہماری فوج کے خفیہ ادارے زیادہ ہدف تنقید بنائے جارہے ہیں اور پاکستان کا کوئی ایک بڑا سیاسی رہنما بھی ایسا نہیں رہ گیا جو خفی یا جلی الفاظ میں افواج پاکستان کی سیاست میں مداخلت کی بات نہ کرتا ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی جوش خطابت میں ہر ادب و لحاظ کو بھول جاتا ہے اور کوئی اپنے الفاظ کو گستاخ نہیں ہونے دیتا لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اب پاکستان کا مولوی ہو یا مسٹر، سب ہی کسی نہ کسی انداز میں افواج پاکستان کا سیاست میں عمل دخل کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان کو بھی کبھی پریس بریفنگ کے ذریعے اور کبھی ٹوئٹ کی مدد سے بار بار وضاحتیں پیش کرنا پڑتی ہیں کہ ان کا براہ راست سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں اور فوج وہی کچھ کرتی ہے جس کا حکم آئین و قانون کے مطابق حکومت ان کو دیتی ہے۔
روز نامہ جسارت میں (7 اکتوبر 2019) شائع ہونے والی خبر کے مطابق آئی ایس پی آر کی جانب سے وضاحت کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ ’’دھرنا سیاسی سرگرمی ہے جس میں فوج کا کوئی کردار نہیں‘‘۔ اس وضاحت کی شاید اس لیے ضرورت پڑی کہ ملک کے وزیر اعظم نے ایک کھلی کچہری میں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ان کی حکومت کو کچھ نہیں ہونے والا کیونکہ ان کے پیچھے فوج کھڑی ہے‘‘۔ ان کے اس غیر ذمے دارانہ بیان کے فوراً بعد جو بیان آنا چاہیے تھا اْس کو ایک ایسے وقت میں آنا جب اسلام آباد میں جے یو آئی اور اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے نہ صرف دھرنا جاری ہے بلکہ اس میں ہر وہ مقرر جو خطاب کرتا ہے تو جہاں وہ موجودہ حکومت کو ہدفِ تنقید بناتا ہے وہیں وہ افواج پاکستان سے اس بات کی شکایت کرتا ہوا بھی نظر آتا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں گہرا عمل دخل کیوں رکھتی ہے، شاید دیر آید مگر درست نہ آید بھی کہا جاسکتا ہے۔ دھرنے کے دوران جو خطاب بھی ہورہا ہے اس میں موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کو مخاطب کرنا اور اس کو کافی معاملات کا ذمے دار ٹھیرانا گو کہ نہایت نامناسب بات ہے لیکن افواج پاکستان کو بھی اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر تنقید کرنے والا صرف اور صرف بری فوج اور اس کے سربراہ ہی کو کیوں تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔
اس بات سے بھی کوئی فرد انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں کوئی ایک ادارہ بھی (سوائے افواج پاکستان) ایسا نظر نہیں آتا جو کسی بھی مشکل وقت میں اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتا ہو کہ عوام کو آرام اور آسائش فراہم کر سکے۔ امن و امان کی صورت کو بر قرار رکھنے کا کام پولیس کا ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں
امن و امان برقرار رکھنے کی ذمے دار صرف اور صرف پولیس ہوا کرتی ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک کی پولیس اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ کسی بھی غیر معمولی صورت حال کا مقابلہ کر سکے۔ ایک چھوٹا سا جلوس بھی اگر بگڑ جائے تو پولیس کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔ سیلاب، زلزلے یا قدرتی آفات کی صورت میں ہمارے ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں کہ وہ ان حالات سے نمٹ سکے۔ کہیں دور دراز کے علاقوں میں کوئی بڑا حادثہ رونما ہوجائے تو کوئی ایک محکمہ بھی ایسا نہیں جو پھنسے ہوئے افراد، زخمیوں یا لاشوں کو اسپتالوں یا محفوظ مقامات تک منتقل کر سکے۔ ملک میں پرامن الیکشن کراسکے اور حد یہ ہے کہ حزب اقتدار اور حزب مخالف میں تنازعات کی صورت میں معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ نمٹا سکے۔ مختصر یہ کہ ہنگامی صورت حال ہو، سیلاب آجائیں، زلزلے تباہی مچادیں، کہیں بڑا حادثہ رو نما ہوجائے یا استصواب رائے کے استعمال کا وقت آجائے تو ہر مقام پر لوگوں کو مشکل صورت حال سے باہر نکالتے صرف اور صرف فوج کے جوان ہی نظر آئیں گے۔ جب کوئی بھی حکومت، اس جانب پیش رفت کرتی نہیں دکھائی دے گی کہ وہ ملک میں ہر قسم کے اداروں کو مضبوط کرے اور اس قابل بنائے کہ ہر معاملے میں افواج پاکستان کو طلب نہ کرنا پڑے تو کوئی تو ہوگا جو ہر مشکل صورت حال سے قوم کو باہر نکالنے میں مدد کرے گا۔ اگر ان نکات پر غور کیا جائے تو پھر کسی بھی سیاسی پارٹی یا کسی بھی تبصرہ و تجزیہ نگار کا افواج پاکستان پر انگلیاں اٹھانا یا ان کو ہدف تنقید بنانا مناسب دکھائی نہیں دیتا۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ آصف غفور کے بقول ’’حکومت اگر الیکشن میں نہیں بلائے گی تو فوج نہیں جائے گی‘‘۔ درست ہی لگتا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ابھی لوگ امریکا و یورپ کی طرح بہت پختہ سوچوں کے مالک نہیں ہوئے ہیں۔ یہاں کے افراد بہت جذباتی اور کسی حد تک جارح واقع ہوئے ہیں اس لیے کسی بھی مقام پر امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کا خطرہ بدرجہ اتم موجود رہتا ہے۔ یہ وضاحت موجودہ دھرنے میں خطاب کے دوران فضل الرحمن کی اس بات پر کی گئی جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ آئندہ کسی بھی انتخابات میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اس لیے فضل الرحمن کی یہ بات کسی حد تک زیادتی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ سب وضاحتیں اپنی جگہ درست ہی سہی لیکن جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ فوج کو امن و امان کی صورت حال کے لیے طلب کرنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح پیش کرے جیسے الیکشن کا سارا عملہ اس کا مطیع و فرماں بردار بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات بہر حال مان لینی چاہیے کہ پاکستان میں ہونے والے 2018 کے الیکشن میں یہ تاثر نہ صرف پاکستان میں ابھرا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پیدا ہوا کہ محض امن و امان کے لیے طلب کی گئی مدد خود الیکشن کمیشن کی صورت میں عوام کے سامنے آئی۔
ایک بات جو عوام اور عوامی نمائندوں کی جانب سے مسلسل سامنے آرہی ہے وہ کرتار پور راہداری کھولنے کی حوالے سے سامنے آرہی ہے اس لیے پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے کہی گئی کچھ باتیں عقل و فہم سے بالا تر معلوم ہوتی ہیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ بیان آنا کہ ’’فوج 20 سال سے ملکی سیکورٹی اور دفاع کے کاموں میں مصروف ہے جو ہمیں یہ اجازت نہیں دیتے کہ خود کو اس طرح کی چیزوں میں اپنے آپ کو ملوث کریں یا الزام تراشیوں کا جواب دیں۔ کنٹرول لائن پر روزانہ فائرنگ ہورہی ہے۔ نیز یہ کہ سکھ یاتری آئیں گے اور چلے جائیں گے وغیرہ‘‘۔ ملک کے اہل شعور یہی بات تو آپ کے علم میں لانا چاہ رہے ہیں کہ جب ہماری کنٹرول لائن پر مسلسل کشیدگی ہے، روز لاشیں گر رہی ہیں، بھارت کشمیری مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہارہا ہے تو آخر سکھ یاتریوں پر آپ کو اتنا پیار کیوں آنے لگا ہے کہ ان کی راہوں میں پھول پتیاں نچھاور کی جارہی ہیں۔ بھارت مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے اور ہم ان پر اپنا خون جگر نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سرحدوں پر یہ کس قسم کی کشیدگی ہے کہ ایک جانب گولہ و بارود کی بارش ہو رہی ہے اور دوسری جانب پھولوں کی برسات کی جارہی ہے۔ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک جانب تو بیان میں ہر قسم کے داخلی اور خارجی معاملات کا حکومت کو ذمے دار ٹھیرایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہم وہی کام کرتے ہیں جس کا حکم حکومت کی جانب سے ہمیں دیا جاتا ہے تو دوسری جانب کرتارپور راہداری کے کھولے جانے کی ذمے داری اپنے سر لی جارہی ہے۔ ممکن ہے کہ اٹھائے گئے بہت سے نکات سادہ لباس یا وردی والوں کی بشریٰ شکنی کا سبب بنیں لیکن معاملات کا شفاف ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ جب تک پاکستان میں ہر معاملہ شیشے کی مانند بالکل شفاف اور آر پار دکھائی نہیں دینے لگے گا قوم کا آگے کی جانب بڑھنا کسی بھی صورت ممکن نہیں۔ آگے بڑھنا ہے تو ہر معاملے کو شیشے کی طرح شفاف ہونا ہے بصورت دیگر جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔