مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کے خلاف صحافیوں کا احتجاج جاری

52

سرینگر (اے پی پی) مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کو بھارت کی جانب سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد انٹرنیٹ سمیت ذرائع مواصلات کی معطلی کے100 دن پورے ہونے پر سرینگر میں صحافیوں نے احتجاجی مارچ کیا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے متعدد صحافی کشمیر پریس کلب سرینگر پر جمع ہوئے اور وادی میں انٹرنیٹ سمیت مواصلاتی ذرائع کی معطلی اور دیگر پابندیوں کے خلاف احتجاجی مارچ کیا اور پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے ان سروسز کی فوری بحالی کا مطالبہ بھی کیا۔ سینئر صحافی پرویز بخاری نے کہا کہ 100دن سے انٹرنیٹ اور دیگر سروسز معطل ہیں، صحافیو ں کے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے انٹرنیٹ بنیادی ضرورت ہے اور ہم اس کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ صحافیوں نے ہاتھوں میں خالی اسکرینوں کے ساتھ اپنے لیپ ٹاپ اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’’100دن کوئی انٹرنیٹ نہیں‘‘ اور ’’کشمیر ی صحافیوں کی تذلیل بندکرو‘‘ کے نعرے درج تھے۔ دوسری جانب مقبوضہوادی میں کشمیریوں نے بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج جاری رکھتے ہوئے دکانیں اور کاروباری مراکز بند رکھے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہے تاہم کہیں کہیں نجی گاڑیاں چل رہی ہیں، دکانیں صرف صبح اور شام کو مختصر وقت کے لیے کھلتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے ساتھ ساتھ دفعہ 144کے تحت سخت پابندیاں بھی عاید ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق قابض انتظامیہ مقبوضہ کشمیر کے 3 سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ، نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کو جموں منتقل کرنے پر غور کررہی ہے۔