سراب تو مل جاتا ہے مگر پانی نہیں ملتا

156

جب کسی شہری کو‘ کسی سرکاری ملام کو‘ کسی پنشنر کو سرکاری اداروں میں جانے کا اتفاق ہو تو‘ پہلا سوال یہی دل میں آتا ہے کہ ہمارا قصور کیا ہے‘ ہم کیوں ناپسندیدہ ہیں؟ قصور یہی ہے کہ ہم نے فیصلہ کرتے وقت سراب کی پوجا کی‘ ہمیں اس ملک میں تیرہ بار جمہوری فیصلہ کرنے کا موقع ملا‘ مگر ہر بار ہمارا ووٹ سراب کے حق میں تھا‘ سراب ایک ایسی کیفیت ہے جہاں پانی کی تلاش میں انسان ہزاروں لاکھوں میل سفر کرکے بھی پانی حاصل نہیں کرپاتا‘ سرکاری ادارہ ہو یا کوئی نجی ادارہ‘ اکثریت میں فیصلے سراب کی نذر ہورہے ہیں‘ ہر روز اپنا کل درست کرنے کے چکر میں ہم اپنا آج بھی برباد کیے جارہے ہیں‘ لیکن خوشنما باتوں‘ دعووں کی دنیا میں رہنے والے کب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔
اسلام آباد جیسا شہر‘ جسے ایک خواب کی تعبیر کے لیے آباد کیا گیا تھا کہ یہاں امن ہوگا‘ انصاف ہوگا اور سوشل جسٹس ہوگا‘ یہی شہر ملک کا چہرہ بھی ہوگا‘ لیکن ہم نے اپنے اس چہرے کو کس قدر بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور کبھی سوچا بھی نہیں ہم کیا کر رہے ہیں۔ آئین اور دستور پاکستان کہتا ہے کہ ہر شہری کو جینے کا حق ہے‘ قانون کے مطابق روزگار کا حق ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ فیصل آباد سمیت ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں حکومت نے ترقیاتی ادارے بنائے ہوئے ہیں‘ جن کی ذمے داری ہے ہی یہ کہ وہ شہر میں انسانی بستیوں کی تعمیر کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر شہری کو مناسب سہولت فراہم کریں لیکن ملک کے تمام بڑے شہروں میں جہاں بھی ایسے ترقیاتی ادارے کام کر رہے ہیں وہاں چوکیدار سے لے کر اعلیٰ افسر تک‘ سب ہر روز خالی بوری گھر سے لاتے ہیں اور پیسوں سے بھر کر لے جاتے ہیں ان اداروں میں کسی بھی سائل کی کوئی فائل‘ روپے پیسے دیے بغیر آگے نہیں چلتی اور ہاں اگر یہاں کسی کی جھولی بھر رہی ہے تو وہ نجی ہائوسنگ مافیا ہے‘ جو آزاد ہے اور قاعدے قانون کا پابند نہیں‘ پیسے کی بنیاد پر ان کے منصوبے چل رہے ہیں۔ نجی ہائوسنگ پروجیکٹس کے لیے ملک کے تمام بڑے شہروں کے ترقیاتی اداروں نے قواعد بنا رکھے ہیں‘ مجال ہے ان پر عمل ہوتا ہو‘ جعلی ہائوسنگ پروجیکٹس کے خوشنما اشتہارات‘ عروسی لباس پہن کر ہر روز اخبارات میں شائع ہورہے ہیں‘ ان کے سبب عام شہری‘ پنشنرز سب لٹ رہے ہیں‘ یہی مافیا ہے جس کے لیے آسانیاں ہیں اسی لیے تو سرکاری اراضی پر قبضے کیے جارہے ہیں مگر کوئی ترقیاتی ادارہ انہیں نہیں پوچھتا‘ یہ طرز عمل یہ ہماری قومی زندگی کا روگ بن چکا ہے۔
ہر جگہ پیسہ چلتا ہے کہ سیاست اب پیسے کا دوسرا نام ہے‘ پیسہ ہے تو سیاست بھی کر سکتے ہو‘ اگر نہیں ہے تو پھر قطار میں سب سے آخر میں جا کھڑا ہونا پڑتا ہے‘ باری کے انتظار میں موت تو آجاتی ہے لیکن باری نہیں آتی‘ ساٹھ سال ہوگئے ہیں‘ جب اسلام آباد کی بنیاد رکھی گئی تھی مگر آج تک تعمیر نہیں ہوسکا‘ جس ادارے کو یہ شہر تعمیر کرنا تھا اس نے اپنے سارے میدان نجی شعبے کے حوالے کر دیے ہیں جو نجی ہائوسنگ سوسائٹی بناتا ہے اور فائلوں کو آگے بیچتا چلا جاتا ہے‘ جس سے پلاٹوں اور تعمیر شدہ گھروں کی قیمت آسمانوں سے جالگی ہے‘ اس سارے نظام نے آج ماحول یہ بنا دیا ہے کہ جینا ہے تو پیسہ جیب میں ہونا چاہیے‘ مرنا ہے تو پیسہ پھر بھی جیب میں ہونا چاہیے۔ پلاٹ‘ گھر خریدنا ہے تو پیسوں کی بوریاں چاہئیں‘ حکومت نے سستے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تھا‘ یہ منصوبے ہر حکومت نے بنائے‘ وزیر اعظم جونیجو نے پانچ مرلے کے گھر تعمیر کرکے دینے کا منصوبہ بنایا تھا‘ یہی منصوبے شکل بدل بدل کر آگے بڑھائے جاتے رہے‘ آج ہم جائزہ لیں کہ ملک کی آبادی کہاں پہنچ چکی ہے اور ملک میں بے گھر افراد کتنے ہیں‘ بلاشبہ آدھی سے زیادہ آبادی بے گھر ہے‘ لیکن کسی ایماندار سرکاری ملازم اور تنخواہ دار طبقے میں ہمت نہیں ہے کہ وہ سر چھپانے کے لیے اپنی تنخواہ سے کی جانے والی بچت اور پنشن کی مدد سے گھر تعمیر کرسکے‘ پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا طبقہ‘ ایک انتہائی محتاط اندازے کے مطابق تقریباً تیس فی صد لوگ‘ گھرانے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں‘ انہیں سانس لینا مشکل ہے گھر تعمیر کرنا تو دور کی بات‘ ہر روز سیاسی جماعتیں مہنگائی کا رونا روتی ہیں‘ مظاہرے کرتی ہیں‘ احتجاج کرتی ہیں لیکن کبھی نہیں سوچا کہ ان کے اپنے دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں کا اسکیل کیا ہے‘ حکومت نے کم از کم تنخواہ سترہ ہزار روپے مقرر کررکھی ہے‘ سیاسی جماعتیں مطالبہ کرتی ہیں کہ تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے مساوی کے جائے‘ یہی سیاسی جماعتیں خود کیا دے رہی ہیں دوسری جانب اخبارات کے اداریے غریب عوام کی محبت میں مرے جارہے ہیں‘ مگر میڈیا مالکان ‘ ایک سے دو‘ دو سے تین‘ تین سے چار ادارے قائم کیے جارہے ہیں اور ساتھ ساتھ ملازمین کو فارغ بھی کیا جارہا ہے‘ ایک بڑے اشاعتی ادارے میں دس ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں‘ مگر جوں کو تو وہ کان ہی نہیں مل رہا کہ جہاں وہ رینگے‘ صحافیوں کی تمام تنظیمیں تنخواہوں کی بروقت ادائیگی ممکن بنانے کے لیے متحرک ہیں لیکن ان کی حرکت نظر نہیں آرہی ہاں البتہ تنظیموں کے عہدیدار بڑھ رہے ہیں‘ یہ عہدیدار اپنا کام کیے جارہے ہیں انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر ملازمین کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔