کیا سید علی گیلانی تھک گئے؟ یا مایوس ہوگئے… انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک مراسلہ لکھا‘ اس میں وہی ساری باتیں کہی ہیں جو وہ پہلے بھی کہتے رہے ہیں۔ لیکن ایک جملہ اور بھی کہہ گئے کہ ’’ہو سکتا ہے کہ اب آپ سے رابطہ نہ ہو…‘‘ پاکستانی حکمرانوں کے رویے کو دیکھ کر تو لگتا ہے یہ کہا گیا ہو کہ چلو بھئی خیر ہے اب روز روز کی کِل کِل سے تو نجات ملی۔ یوں بھی مودی سرکار کے موڈ سے لگ رہا ہے کہ اپنے اسی دور حکومت میں پاکستانی حکام کو سارے دردِ سر سے آزاد کرکے ہی جائے گی‘ کشمیر ہڑپ کر لیا‘ گلگت اور لداخ کو اپنا بنا لیا۔ کشمیریوں پر زندگی تنگ کردی۔ اپنی مرضی کی مردم شماری کرانے کا اعلان کر دیا۔ اب سن گن ہے کہ کل بھوشن کو بھی لے جانے کی تیاری ہے اور بابری مسجد بھی گئی۔ جب کہ یہاں دوسری باتیں ہو رہی ہیں۔ نواز شریف‘ زرداری احتساب‘ کرپشن پیسہ اور پیسہ… نواز شریف باہر جائیں گے یا نہیں جا ئیں گے‘ ٹماٹر کتنے کا ہو گیا‘ ملنا کتنے کا چاہیے تھا۔ سبزی مہنگی ہے یا سستی… لیکن سیلاب سب کچھ لے جا چکا ہے۔ سونامی لے کر عمران خان اٹھے تھے اور جب اٹھے تھے تب بھی اور بار بار ہم نے توجہ دلائی تھی کہ سونامی جب بھی آتا ہے خوب تباہی پھیلاتا ہے اور واپس جاتے ہوئے صرف کچرا چھوڑ کر جاتا ہے۔ اب سونامی آچکا اورجاچکا کچرا باقی اپنے ساتھ تباہی لایا‘ پاکستان کے ادارے تباہ کر دیے‘ قوم کا مزاج تباہ کر دیا‘ قومی سوچ تباہ کر دی‘ قوم کو ٹاک شو میں الجھا رکھا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم کو ذہنی طور پر بری طرح تباہی سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ اب صبح ہر پاکستانی سبزی ٹماٹر کے بھائو پوچھتا ہوا اٹھتا ہے اور دھرنے اور نواز شریف کی صحت اور وزرا کے بیانات سنتا ہوا سو جاتا ہے۔ اسے اس کی فکر نہیں کہ پاکستان کا وقار خاک میں ملا دیا گیا ہے‘ کشمیر ہاتھ سے نکلا چاہتا ہے‘ بابری مسجد پر نہایت واہیات فیصلہ آگیا ہے‘ کرتار پور کے کھیل کا فائدہ تو سکھوں کو اور کسی اور کو ہوگا ہمارے وزرا اور حکام بغلیں بجانے میں مصروف ہیں۔
اس صورت حال میں اضافہ عدالتی کارروائیوں‘ ججوں کے ریمارکس ہو رہا ہے۔ پہلے کرپشن پر بحث پھر نواز شریف کی صحت پر بحث اب ٹماٹر پر بحث ہوتی رہے گی۔ کیا کسی ایٹمی ملک کی سیاست کا یہ انداز ہونا چاہیے؟ بالفرض اگر ٹماٹر ایک ہزار روپے کلو مل رہا ہے تو کیا قوم مر جائے گی‘ ٹماٹر کھا کر تو کوئی بھی مر سکتا ہے کہ اس میں کوئی کیڑا ہو جو معدے میں جا کر نقصان پہنچا دے لیکن جدید سائنس یہ معلوم کرنے میں ناکام ہے کہ ٹماٹر نہ کھانے سے بھی کوئی مر سکتا ہے۔ لیکن نظریے سے محرومی کے نتیجے میں قومیں مر جاتی ہیں۔ ماضی سے رشتے کو کاٹ دیں تو قومیں مر جاتی ہیں۔ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں اسلام کو غیر متعلق بنا دیں تو اسلام کو کچھ نہیں ہوگا قوم ہی مرے گی لیکن جس قسم کا رویہ قوم کی جانب سے ظاہر کیا جارہا ہے اس سے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ قوم کا شعور تو مر چکا ہے۔ کشمیریوں نے سو دن خوراک‘ دوائوں‘ ٹیلی فون‘ بجلی‘ تعلیم اور انسانی حقوق کے بغیر گزار دیے‘ ان کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ سید علی گیلانی نے ایس او ایس بھیج دیا۔ وہ ان تمام سہولتوں کے بغیر زندہ ہیں کیوں کہ ان کا ضمیر زندہ ہے۔ یہاں سرحد کی دوسری طرف ضمیر کو کچلا جا چکا ہے۔ اب کوئی بھی بابری مسجد کے لیے نہیں تڑپا… کشمیر پر اب چھوٹے چھوٹے جلسے ہوں گے‘ بڑا ہوگیا تو میڈیا غائب کر دے گا۔ سارا دن تو قوم کو ڈراموں میں الجھا کر رکھا جاتا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومتِ پاکستان سید علی گیلانی کے مشورے پر عمل کرے گی… شاید گیلانی صاحب کو اس حوالے سے امیدیں ہوں لیکن پاکستانی قوم تو حکمرانوں سے مایوس ہے کیوں کہ 5 اگست‘ 31 اکتوبر‘ بابری مسجد ہر معاملے پر ہمارے حکمرانوں نے صرف بیانات کی توپیں چلائیں‘ اگر کوئی معاہدہ ختم کرنا ہوتا تو بہت پہلے کر چکے ہوتے۔ ویسے بھارت کے ہر قدم کے نتیجے میں معاہدے ختم ہو رہے ہیں۔ 5 اگست کے قدم سے بیک وقت کئی معاہدے ختم ہو گئے۔ شملہ معاہدہ تو اس اقدام کا براہ راست نشانہ بنا جب کہ بھارت نے خود اقوام متحدہ جا کر استصواب کا جو اعلان کیا تھا اس سے بھی روگردانی ہوئی ہے۔ بھارتی اقدامات کے بعد پاکستان کو صرف اس بات کی توثیق کرنی ہے کہ تمام معاہدے کالعدم ہو چکے‘ سید علی گیلانی نے جو پیغام بھیجا ہے اس میں معاہدوں کو ختم کرنے یا نہ کرنے پر زور نہیں ہے بلکہ ایک واضح اشارہ ہے کہ اب حکومت پاکستان سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ یہ کہنا کہ پاکستانی حکومت کے کسی اقدام سے کشمیریوں کو تقویت ملتی ہے‘ اب غلط ثابت ہو چکا ہے‘ پاکستانی حکومت کئی ماہ سے کشمیر پر بیان کے سوا کوئی اقدام ہی نہیں کر رہی تو پھر تقویت کس چیز سے ملے گی۔ اور بیانات بھی کیا خوب!!! صرف تین بیانات ملاحظہ فرما لیں اور سمجھ لین کہ معاملات کہاں جا چکے ہیں۔ 1۔ قوم کنٹرول لائن عبور کرنے کے لیے میری کال کا انتظار کرے۔ 2۔ کسی نے کنٹرول لائن عبور کی تو غدار ہوگا۔ اور جہاد کی بات کشمیریوں اور پاکستان سے دشمنی ہے۔ تیسرا اور آخری بیان ’’کشمیر کی وجہ سے پاکستان خطرے میں ہے۔
اب کشمیریوں کا دارومدار مکمل طور پر اپنی جدوجہد پر ہے۔ اگرچہ پہلے بھی ایسا ہی تھا کہ کشمیریوں نے اپنی تحریک خود چلائی ہے۔ 1989ء میں بھی ایسا ہی ہوا ان کی کامیابی کو پاکستانی حکومت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ بھارت کے خلاف اس کامیابی کو استعمال کرنا چاہیے تھا لہٰذا غلط نہیں تھا لیکن کشمیریوں کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھ سکا۔