بلاعنوان

128

حکومت نے سکھ کمیونٹی کی خوشنودی کے لیے بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر 50 روپے کا یادگاری سکہ جاری کرکے عالمی برادری کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اقلیتوں سے کتنی محبت کرتی ہے۔ یادگاری سکے سے سکھ برادری پر اپنا سکہ بٹھایا ہے کیوں کہ اس کی خوش نمائی نے سکھوں کے دل خوش کردیے ہیں۔ سکے کی ایک جانب اسلامی جمہوریہ پاکستان کندہ ہے اور قومی نشان بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔ دوسری جانب بابا گرونانک اور گردوارہ کی خوب صورت تصویر کندہ ہے۔ کالم شائع ہونے تک کرتارپور راہداری کھل چکی ہوگی اور وزیراعظم عمران خان افتتاح کا اعزاز حاصل کرچکے ہوں گے، انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوگا کہ کرتارپور میں سکھوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ بنائی جائے گی جس پر اربوں روپے کی لاگت آئے گی۔ علاوہ ازیں بابا گرونانک کے نام سے منسوب ایک یونیورسٹی بھی تعمیر کی جائے گی۔ کہنے والوں کی یہ بات کسی حد تک درست ہی لگتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان دنیا کا چھٹا ہوا لیڈر بننے کی خواہش میں کسی بھی حد تک تک جاسکتے ہیں سو، اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ بھارت کی فرمائش پر سکھ یاتریوں کی آمد فیس بھی معاف کردیں، کیوں کہ بھارت سرکار کرتارپور راہداری میں اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہتی ہے مگر مودی جی چاہتے ہیں ہلدی لگے نہ پھٹکری، رنگ ایسا آئے کہ سکھ کمیونٹی کی آنکھ چندھیا جائیں۔
یادش بخیر! جن دنوں ڈیمز کی تعمیر کے لیے چندا مہم عروج پر تھی تو سکھ کمیونٹی نے پیش کش کی تھی کہ دیامیر ڈیم، بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم میں سے کسی بھی ڈیم کو بابا گرونانک کے نام سے منسوب کردیا جائے تو وہ اس ڈیم کے سارے اخراجات ادا کریں گے، مگر کسی کو یہ آفر قبول کرنے کی توفیق نہ ہوئی، کیوں کہ پاکستان کا کوئی بھی حکمران ڈیم بنانا ہی نہیں چاہتا۔ گویا پاکستان کا ہر حکمران درآمد ہدایت کا پابند ہوتا ہے۔ کاش! پاکستانی حکمران اس حقیقت کا ادراک کرسکتے کہ دوسروں کی خواہشات کی تکمیل کرنے والے غلاموں سے بدتر ہوتے ہیں۔ ڈیم کو بابا گرونانک کے نام سے منسوب کرنے سے گریزاں طبقہ آج بابا گرونانک کے نام سے منسوب یونیورسٹی بنارہا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا گردوارہ بنارہا ہے۔ ممکن ہے عبادت گاہ اور یونیورسٹی سکھ کمیونٹی بنارہی ہو مگر اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وزیراعظم عمران خان سکھ کمیونٹی کی خواہش کا احترام کررہے ہے لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ بابا گرونانک کے نام سے کسی ڈیم کو منسوب کرنے میں کیا قباحت تھی؟ جب کہ ڈیم کی تعمیر سکھ کمیونٹی کرارہی تھی۔ اچھا ہوتا کہ بابا گرونانک کی 550 ویں سال گرہ پر ڈیم بنانے کی آفر کو قبول کرلیا جائے تا کہ دیگر ڈیم بنانے کی راہ ہموار ہو۔ کاش! سابق صدر آصف علی زرداری کبھی کالا باغ ڈیم کھپے کا نعرہ بھی بلند کریں۔ اس مبارک موقع پر ہم سکھ کمیونٹی سے گزارش کریں گے کہ ڈیم بنانے کی پیش کش اگر افواہ نہ تھی تو ڈیم تعمیر کرنے کی پیش کش کریں ممکن ہے بابا گرونانک کی 550 ویں سال گرہ پاکستانی حکمرانوں کے دل میں پڑی ڈیم کی گرہ کھل جائے۔