دیگ میں کنی!

163

واجب الاحترام چیف جسٹس پنجاب نے ایک مقدمے کے دوران اپنے ریمارکس میں حکومت پنجاب کو مشورہ دیا ہے کہ اگر چند ایس ایچ اوز کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے تو صوبے میں امن وامان ہوجائے گا۔ سیانے کہا کرتے تھے کہ دیگ کا ایک چاول ہی بتادیتا ہے کہ دیگ میں کیا خرابی ہے مگر چیف صاحب کا فرمان ہے کہ جب تک دیگ میں گفگیر نہ گھمایا جائے دیگ کے بارے میں کچھ کہنا غیر مناسب ہے، ممکن ہے چیف صاحب کا تجربہ سیانوں سے مختلف رہا ہو۔ بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ دیگ کے چاول میں کنی رہ جائے تو پوری دیگ ہی خراب ہوجاتی ہے۔ محکمہ پولیس کی دیگ میں بھی کنی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہر ادارے کی دیگ میں کنی پائی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس ’’کنی‘‘ کا ذمے دار کون ہے۔ سیانوں نے یہ بھی کہا کہ نصیحت پر عمل کرنے سے پہلے یہ سوچنا بہت ضروری ہے کہ ناصح جس کام سے روک رہا ہے خود بھی اس سے اجتناب برتتا ہے کہ نہیں۔ ایک عورت نے پیر صاحب سے کہا۔ سائیں! اس بچے کو سمجھائیے کہ گڑ کھانا بُری بات ہے۔ پیر صاحب نے کہا اگلی جمعرات کو آنا۔ عورت چلی گئی تو ایک مرید نے استفسار کیا۔ اعلیٰ حضرت دعا تو آج بھی کی جاسکتی تھی۔ پیر صاحب مسکرائے اور کہا گڑ تو میں بھی بہت شوق سے کھاتا ہوں بچے کو کیسے کہوں کہ گڑ مت کھایا کرو، اس سے دانتوں میں کیڑا لگ جاتا ہے، اگلی جمعرات کو عورت بچے کو لے کر آئی تو پیر صاحب نے بچے کو سمجھایا کہ گڑ مت کھایا کرو اس سے دانت خراب ہوجاتے ہیں اور پھر دعا کی کہ اے رب کائنات اس بچے کو گڑ سے پرہیز کی توفیق عطا فرما۔
چیف صاحب پولیس کی دیگ میں کنی ہونے کی وجہ سے عدالتوں کے معدے خراب ہورہے ہیں۔ تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ کھٹی ڈکاروں نے دماغی حالت کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔ سوچتے کچھ ہیں، کرتے کچھ ہیں، جج صاحب کی قوت فیصلہ بھی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ کچھ عرصے قبل قتل کے ایک مقدمے میں ٹرائل کورٹ نے ایک ملزم کو سزائے موت سنائی تھی، اپیل کی گئی تو ہائی کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ عدالت عظمیٰ میں اپیل کی گئی تو بریت کی نوید سنائی گئی۔ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملزم کو ایسے گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر سزا دی گئی جو موقع واردات پر موجود ہی نہ تھے۔ قاتل کی یہ دلیل بھی مان لی گئی۔ مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر۔ عدالت عظمیٰ نے جھوٹے گواہوں کو سزا دینے کے لیے طلب کرلیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے جس جج نے سزائے موت سنائی تھی اس کے خلاف کیا کارروائی کی گئی اور ہائی کورٹ کے جسٹس کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا۔ اگر چیف صاحب اپنے فرمان کا اطلاق اپنے ادارے پر بھی کریں تو عدالت ایسے شرمناک فیصلے نہ کرے۔ چند ججوں اور جسٹس صاحبان کو قانون سے تجاوز کرنے اور اختیارات کا غلط استعمال کرنے پر تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے تو پھر کوئی جج یا جسٹس آنکھ بند کرکے فیصلے صادر نہ کرے۔ تادیبی کارروائی آدمی کی لگام کس کر رکھتی ہے۔ آدمی کی جبلت میں خود سری، سرکشی اور احساس برتری کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا۔
چیف صاحب عدلیہ کی لگام کو اپنے ہاتھ میں رکھیے ورنہ، بے گناہ پھانسی چڑھتے رہیں گے ۔ چیف صاحب کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں کہ بہاولپور ہائی کورٹ میں بیسویں ایسے کیس 2014ء سے پڑے ہوئے ہیں جن کی آج تک سماعت ہی نہیں ہوئی۔ کیا یہ آئین اور قانون کو تماشا بنانے والے بات نہیں یہ ایسے مقدمات ہیں جنہیں سول کورٹ اور سیشن کورٹ عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کرچکی ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے لے پالک یہ بچے کب تک حق داروں کا منہ نوچتے رہیں گے؟۔