مقامِ محمود

484

سیدنا محمد رسول اللہؐ کے مقاماتِ عالیہ اور خصائصِ کبریٰ میں سے ایک اہم اعزاز ’’مقامِ محمود‘‘ ہے، اس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کیجیے جو خاص آپ کے لیے اضافی عبادت ہے، یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا، (بنی اسرائیل: 79)‘‘۔
مندرجہ بالا آیت میں لفظِ ’’عَسیٰ‘‘ آیا ہے جو امید کے معنی میں ہوتا ہے، لیکن جب اس کلمے کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو پھر وجوب کے معنی میں آتا ہے، یعنی یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا، کئی مفسرین نے یہ معنی مراد لیا ہے۔ لغوی اعتبار سے ’’محمود‘‘ کے معنی ہیں: ’’ہر اعتبار اور ہر جہت سے ایسا مقامِ رفیع جو سب کے لیے مرکز ومحور بن جائے، سب کی نظریں اُسی کی طرف اٹھیں اور ہر ایک بے اختیار مدح وستائش پر مجبور ہوجائے‘‘، تاہم شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد ’’مقامِ شفاعتِ کبریٰ‘‘ ہے۔
شفاعت کا اردو متبادل سفارش ہے، یہاں ہم نے شفاعت کے لغوی معنی سے دانستہ اعراض کیاہے تاکہ تحریر عام قارئین کے لیے ثقیل نہ ہوجائے۔ شریعت میں شفاعت کے معنی ہیں: ’’رسول اللہ ؐ کا مقبولین بارگاہِ خداوندی کی بلندیِ درجات اور صغیرہ گناہوں کی معافی، گناہگاروںکے لیے کبیرہ گناہوں کی مکمل معافی یا عذاب میں تخفیف کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا، استغفار اور سفارش کرنا‘‘، پس یہ سفارش ہر ایک کے حسبِ حال ہوگی۔ محشر میں اولیاء وصلحاء، عام مومنین، فساق وفجار، کفار ومشرکین الغرض سارے انسان جمع ہوں گے اور میزانِ عدل قائم ہونے میں تاخیر ہوگی، یہ مرحلہ سب کے لیے انتہائی کُلفت کا باعث ہوگا اور سب کی تمنا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی وسیلہ بنے اور یہ عبوری مرحلہ آگے کی طرف بڑھے، قرآنِ کریم میں میدانِ حشر کی ہولناکی کو بیان کیاگیا ہے:
(۱) ’’بے شک تمہارے ربّ کے نزدیک ایک دن ایسا ہے جو تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کی مانند ہے، (الحج: 47)‘‘۔ (۲) ’’اُس دن کی مقدار پچاس ہزار برس ہے، (المعارج: 4)‘‘۔ ان آیات کا ایک معنی تو یہ ہے کہ قیامت کے دن کی طوالت کو ایک ہزار سال یا پچاس ہزار سال سے تعبیر کیا گیا ہے، یا یہ کہ یومِ قیامت کا گزرنا ہر ایک کے حسبِ حال ہوگا۔ انسان کی فطرت ہے کہ انتہائی کرب کے عالَم میں ایک لمحہ بھی برسوں کے برابر محسوس ہوتا ہے اور عیش وراحت کے عالَم میں لگتا ہے کہ کئی برس پلک جھپکتے میں گزر گئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور قیامت کا معاملہ صرف ایک پلک جھپکنے کی مانند یا اُس سے بھی قریب ہوگا، (النحل: 77)‘‘۔ رسول اللہ ؐ سے المعارج: 4کے حوالے سے پوچھا گیا: پھر یہ دن تو بہت ہی طویل ہوگا، آپ ؐ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، مومن پر اسے ہلکا کردیا جائے گا، حتیٰ کہ اُسے اتنا خفیف محسوس ہوگا جیسے دنیا میں ایک فرض نماز کا وقت ہوتا ہے، (مشکوٰۃ)‘‘۔
الغرض زمان ومکان ایک ہوگا، لیکن ہر ایک پر اپنے اعمال کے مطابق بیت رہی ہوگی، آپ ؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن سورج مخلوق کے قریب ہوگا، لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے اپنے پسینے میں ڈوبے ہوں گے، کسی کا پسینہ ٹخنوں تک، کسی کا گھٹنوں تک، کسی کا کمر تک اور کسی کالگام کی مانند منہ تک پہنچا ہوگا، (مسلم)‘‘۔ پس ایسا ممکن ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے مقربین ومحبوبین کے لیے وہ دن پل بھرکی مانند ہوگا، تاہم انسان چاہتا ہے کہ عبوری منزل سے گزر کر اپنے مستقل مقام پر جاپہنچے۔
صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث کا خلاصہ ہے: ’’اہلِ محشر مصیبت کے عالم میں کسی شفیع اور وسیلے کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے، وہ بالترتیب حضراتِ آدم، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے رجوع کرتے ہوئے بالآخر سید المرسلین کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے، کیونکہ ہر نبی یہ کہے گا: ’’آج بارگاہِ جلالت میں مجھے کچھ عرض کرنے کی مجال نہیں ہے‘‘، جبکہ آپ ؐ فرمائیں گے: اس منصب کا اہل میں ہی ہوں۔ پھر آپ ؐ کو اذنِ شفاعت عطا ہوگا، اس عظیم منظر کو آپ یوں بیان فرماتے ہیں: ’’مجھے حمدِ باری تعالیٰ کے خاص کلمات اِلقا کیے جائیں گے، میں ان کلمات سے اللہ کی حمد بیان کروں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! سر اٹھائیے، آپ کا کہا سنا جائے گا، آپ جو مانگیں گے، عطا کیا جائے گا، آپ کی شفاعت قبول ہو گی‘‘، آخر میں ہے: آپ بنی اسرائیل: 79 کی تلاوت کرکے فرمائیں گے: ’’یہ وہ مقامِ محمود ہے جس کا اللہ نے تمہارے نبی سے وعدہ کیا ہے‘‘۔ ایک اور حدیث میں آپ ؐ نے فرمایا: ’’ہر نبی سے اللہ نے قبولیتِ دعا کا ایک وعدہ فرمایا ہے، پس ہر نبی نے جلدی سے اپنی مراد مانگ لی اور میں نے اس وعدۂ ربانی کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے بچا کر رکھ لیا ہے، ان شاء اللہ میرا جو بھی امتی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیرائے گا، وہ (کسی نہ کسی مرحلے پر) اس دعا سے مستفید ہوگا، (مسلم)‘‘۔ یہ بھی مقامِ محمود کی طرف اشارہ ہے: رسول اللہ ؐ اجابتِ دعا کے وعدۂ ربانی کا حوالہ دے کر قیامت کے دن گنہگارانِ امت کی شفاعت فرمائیں گے، آپ ؐ نے فرمایا: ’’مجھے دوباتوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا: میں شفاعت کو اختیار کروں یا یہ کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہوجائے، پس میں نے شفاعت کو اختیار کیا، کیونکہ یہ عام ہے، اس میں سب کے لیے کفایت ہے، تم سمجھ رہے ہوگے کہ صرف متقین کے لیے، نہیں! بلکہ گناہگاروں، خطاکاروں اور معصیت میں آلودہ سب کے لیے ہے، (ابن ماجہ)‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’عن قریب آپ کا ربّ آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے، (الضحیٰ: 5)‘‘، علامہ قرطبی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی ؐ نے فرمایا: پھر تو جب تک کہ میرا ایک بھی امتی جہنم میں ہے، میں راضی نہیں ہوں گا‘‘، پھر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جبریلِ امین سے فرمائے گا: محمد ؐ کے پاس جائو اور کہو: بے شک ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور آپ کو رنج نہیں پہنچائیں گے، (مسلم)‘‘۔
قرآنِ کریم میں شفاعت کی نفی اور اثبات دونوں طرح کی آیات موجود ہیں، کالم میں ماہرینِ علم العقائد کی طویل بحثوں کی گنجائش نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’سو اُن (مجرموں) کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نفع نہ پہنچائے گی، (المدثر: 48)‘‘، پھر فرمایا: (۱) ’’کس کی مجال ہے کہ اس کی بارگاہ میں سفارش کرے، مگر جسے وہ اِذن عطا فرمائے، (البقرہ: 255)‘‘، (۲) ’’اُس دن کسی کی شفاعت نفع نہیں پہنچائے گی مگر جسے رحمن نے اجازت دی ہو اور اس کی بات سے وہ راضی ہو، (طہٰ: 109)‘‘۔ اس مفہوم کی دیگر آیات بھی موجود ہیں کہ اللہ کے حضور اس کے اذن سے شفاعت کی جائے گی، مگر جب تک رسول اللہ ؐ مقامِ محمود پر فائز نہیں ہوں گے، بابِ شفاعت نہیں کھلے گا، اس کے بعد انبیائے کرام ورُسلِ عُظام، اولیاء وصُلَحاء حسبِ مرتبہ سفارش کریں گے، یہاں تک کہ حدیث پاک میں ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’بے شک ناتمام پیدا ہونے والا بچہ اپنے ربّ سے بر بنائے ناز جھگڑے گا، تو اس سے کہا جائے گا: اپنے ربّ سے جھگڑنے والے ناقص بچے! اپنے ماں باپ کو جنت میں لے جا، وہ اُن دونوں کو اپنی نال کے ساتھ باندھ کر کھینچے گا یہاں تک کہ اُن دونوں کو جنت میں داخل کردے گا، (ابن ماجہ)‘‘۔
رسول اللہ ؐ نے اپنے فضائل وخصائص خود بیان کیے، ہم کئی احادیثِ مبارکہ میں بیان کردہ فضائل کو یکجا کر کے درج کر رہے ہیں، آپ ؐ نے فرمایا: ’’میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور یہ میرے لیے کوئی فخر کی بات نہیں، آدمؑ سے لے کر عیسیٰؑ تک سب انبیاء میرے پرچم تلے ہوں گے، میں رسولوں کا قائد ہوں گا، میں خاتم النَّبِیّٖن ہوں، میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا اور مقبولُ الشفاعۃ ہوں گا اور یہ میرے لیے فخر کی بات نہیں، قبر سے باہر آنے والا پہلا شخص میں ہی ہوں گا، جب انسانیت اللہ کے حضور حاضر ہوگی تو اُن کا قائد میں ہی ہوں گااور جب جلالِ الٰہی کے آگے سب لوگ مہر بہ لب ہوں گے تو اُن کا ترجمان میں ہوں گا، جب انہیں حشر میں روک دیا جائے گا تو اُ ن کا وسیلۂ شفاعت میں بنوں گا، جب نجات کی ساری امیدیں ٹوٹ جائیں گی تو بشارت دینے والا میں ہی ہوں گا، ساری عزتیں اور ربّ کے خزانوں کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی، حمدِ باری تعالیٰ کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا، اللہ کی بارگاہ میں اولادِ آدم میں سب سے معزز میں ہی ہوں گا، ہزاروں خدام چمکتے ہوئے موتیوں کی طرح میرے گردوپیش ہوں گے‘‘۔
شفاعت کی کئی صورتیں ہیں: (۱) شفاعت بالاذن: جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں شفاعت کا اذن عطا فرمائے گا، (۲) شفاعت بالوجاہت: جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں عِزّوشرَف سے نوازا ہے، وہ کسی کی شفاعت کریں گے تو اللہ ان کی لاج رکھے گا، قرآنی آیات میں انبیائے کرام کی وجاہت کا ذکر ہے، (۳) شفاعت بالمحبت: محبوبینِ باری تعالیٰ کو اس کی بارگاہ میں شفاعت کا اعزاز نصیب ہوگا، (۴) شفاعت کی ایک صورت دعا واستغفار ہوگی۔
نبی ؐ نے فرمایا: ’’جب مؤذن اذان کہے تو تم بھی کلماتِ اذان کو دہرائو، پھر مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے مقامِ وسیلہ کی دعا مانگو، یہ جنت میں ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی ایک خاص بندے کو عطا فرمائے گا، مجھے یقین ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا، سو جو میرے لیے ’’مقامِ وسیلہ‘‘ کی دعا مانگے گا، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی، (مسلم)‘‘۔ ہم نے اپنے مجموعۂ فتاویٰ ’’تفہیم المسائل‘‘ کی جلد اول میں یہ ثابت کیا ہے کہ دعا بعد الاذان کے تمام کلمات احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہیں، اُس میں یہ بھی ہے :’’اور اے اللہ! انہیں مقامِ محمود پر فائز فرما، جس کا تو نے اُن سے وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ رہا یہ سوال کہ جب اللہ نے اپنے حبیبِ مکرم ؐ سے ’’مقامِ وسیلہ‘‘ اور ’’مقامِ محمود‘‘ کا وعدہ فرما رکھا ہے تو ہماری دعا کی کیا ضرورت ہے، تو جواباً عرض ہے: ’’ہماری دعا ہماری اپنی سعادت کے لیے ہے، رسول اللہ ؐ کے مقاماتِ رفیعہ ہماری دعا کے محتاج نہیں ہیں‘‘۔