دھرنے کی سیاست

163

دھرنوں کی سیاست سے کم از کم یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے سیاستدان ملک میں جمہوری قدروں کو پروان چڑھانے، پارلیمانی نظام کو مستحکم بنانے، انتخابی اصلاحات کے ذریعے شفاف انتخابات کو یقینی بنانے، کرپشن کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنے اور قومی مسائل ہیں اتحاد و یک جہتی کا رویہ اپنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، وہ بُری طرح ہوس اقتدار میں مبتلا ہیں اور اس کے لیے ہر حد پار کرنے کو تیار ہیں دھرنے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن طویل دھرنے کی روایت علامہ طاہر القادری نے ڈالی جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں مایوس ہو کر کینیڈا منتقل ہوگئے تھے اور وہاں کی شہریت اختیار کرلی تھی۔ جنرل پرویز مشرف رخصت ہوئے اور 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو کچھ عرصے بعد پھر طاہر القادری کو پاکستان کی یاد ستانے لگی انہیں کسی نے بلایا یا یا وہ خود آئے؟ یہ راز نہیں کھل سکا۔ بہرکیف وہ آئے تو ان کا نعرہ تھا ’’سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘ ان کے نزدیک ریاست پاکستان شدید خطرے میں تھی اور وہ اسے بچانے کے لیے کینیڈا سے وارد ہوئے تھے، انہوں نے ریاست کو بچانے کے لیے لاہور سے اسلام آباد تک ایک بڑے قافلے کے ہمراہ مارچ کیا یہ قافلہ ان کے مریدوں پر مشتمل تھا جس میں بچے، بوڑھے، مرد، عورتیں سبھی شامل تھے۔ عورتیں شیر خوار بچے بھی اپنے ہمراہ لائی تھیں۔ اسلام آباد پہنچنے کے بعد یہ قافلہ دھرنا دے کر بیٹھ گیا۔ علامہ صاحب اپنے ائرکنڈیشنڈ کنٹینر میں استراحت فرمانے لگے جب کہ ان کے مریدوں نے شاہراہ دستور پر ڈیرے جمالیے۔ علامہ صاحب ان میں کسی وقت کنٹینر پر نمودار ہوتے اور دھرنے سے خطاب فرماتے تھے۔ اب ہمیں یاد نہیں کہ ان کے مطالبات کیا تھے لیکن یہ ذہن میں ہے کہ وہ بہت بڑا عوامی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو بے نقط سنارہے تھے۔ ابتدا میں تو حکومت نے کچھ توجہ نہ دی اس کا خیال تھا کہ علامہ صاحب اپنا شوق پورا کرنے کے بعد خودبخود چلے جائیں گے لیکن جب دھرنا طول کھینچ گیا اور شاہراہ دستور پر تعفن پھیل گیا تو حکومت حرکت میں آئی۔ آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ صدر زرداری کی ہدایت پر علامہ صاحب کے ساتھ مذاکرات شروع ہوگئے۔ علامہ صاحب نے نہایت سخت مطالبات پیش کیے۔ ان مطالبات کا لب لباب یہ تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت ہمارے حوالے کرکے لاڑکانہ رخصت ہوجائے۔ صدر زرداری کو جب ان مطالبات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی مذاکراتی ٹیم کو ہدایت کی کہ علامہ صاحب کے سارے مطالبات تسلیم کرلیے جائیں اور ان پر عملدرآمد کے لیے چھ ماہ کی مہلت طلب کرلی جائے۔ علامہ صاحب نے بخوشی یہ مہلت دے دی۔ چناں چہ معاہدہ طے پاگیا، علامہ صاحب نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر اپنے مریدوں کو خوشخبری سنائی اور انہیں واپس کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ پھر چھ ماہ سے پہلے ہی علامہ صاحب بھی کینیڈا کوچ کرگئے۔ یہ تھا اس دھرنے کا انجام، حکومت نے علامہ صاحب کو باعزت واپسی کا راستہ فراہم کردیا تھا۔
دوسرا دھرنا عمران خان نے نواز شریف حکومت کے خلاف 2014ء میں دیا۔ یہ دھرنا ابتدا میں عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا جوائنٹ ونچر تھا۔ اُس زمانے کے اخبارات گواہ ہیں کہ اس دھرنے کا منصوبہ لندن میں بنا تھا اس لیے اسے ’’لندن پلان‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ہوا یوں کہ عمران خان پاکستان سے لندن پہنچے تھے جب کہ علامہ صاحب کینیڈا سے لندن آئے تھے اور دونوں نے مل کر دھرنے کی منصوبہ بندی کی تھی پھر علامہ صاحب کینیڈا چلے گئے اور عمران خان پاکستان واپس آگئے۔ کچھ دنوں بعد دونوں لیڈر لاہور میں جمع ہوئے اور اسلام آباد کی طرف مارچ
کا آغاز ہوا۔ علامہ صاحب کے ساتھ حسب سابق مریدوں کی خاصی تعداد تھی جس میں عورتیں اور شیر خوار بچے بھی شامل تھے جب کہ عمران خان کے ساتھ بھی پرجوش نوجوانوں کی بڑی تعداد تھی۔ دونوں قافلے مارچ کی صورت میں الگ الگ اسلام آباد پہنچے اور وفاقی دارالحکومت میں ڈیرہ جمالیا۔ عمران خان اپنے کنٹینر پر اور علامہ صاحب اپنے الگ کنٹینر پر براجمان ہوگئے۔ دونوں لیڈروں کا مطالبہ تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ عوامی مینڈیٹ چرایا گیا ہے اس لیے میاں نواز شریف استعفا دیں اور ازسرنو انتخابات کرائے جائیں۔ علامہ صاحب نے نہ تو 2013ء کے انتخابات میں حصہ لیا تھا نہ ان کی جماعت ’’عوامی تحریک‘‘ کا کوئی آدمی پارلیمنٹ میں موجود تھا وہ تو بالکل فارغ تھے۔ البتہ عمران خان کی تحریک انصاف کے تیس پینتیس ارکان منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئے تھے اور خود خان صاحب بھی اسمبلی میں موجود تھے، یہ لوگ چاہتے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے بہت کچھ تبدیل کرسکتے تھے لیکن عمران خان نے پارلیمنٹ میں جانے کے بجائے کنٹینر پر کھڑے ہونے کو ترجیح دی اور امپائر کی انگلی اُٹھنے کا انتظار کرنے لگے۔ علامہ صاحب بھی اس انتظار میں تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ معاملہ طول کھینچتا جارہا ہے تو انہوں نے رخت سفر باندھ لیا اور خان صاحب کو داغ مفارقت دے گئے یہ بھی سننے میں آیا کہ شریف فیملی سے درپردہ ان کے معاملات طے پاگئے تھے اس لیے وہ خرچا وصول کرنے کے بعد کینیڈا واپس چلے گئے۔ اب عمران خان اور ان کے چند ہزار ساتھی میدان میں تھے جن کی تعداد روز بروز کم ہوتی جارہی تھی اس دھرنے میں کسی اپوزیشن پارٹی نے ان کا ساتھ نہ دیا ان کا سارا انحصار امپائر کی انگلی پر تھا جو طویل انتظار کے باوجود نہ اُٹھی۔ بالآخر 126 دنوں بعد خان صاحب کو یہ دھرنا ختم کرنا پڑا۔
تیسرا دھرنا حضرت مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کے خلاف دیا جو کل بات ہے اور جس کے آفٹر شاکس ابھی تک محسوس ہورہے ہیں اس دھرنے کی تیاری مولانا ایک سال سے کررہے تھے۔ انہوں نے عمران خان کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ملک کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بھی ساتھ ملاکی کوشش کی تھی۔ مولانا نے دھرنے سے پہلے آزادی مارچ کا اعلان کیا تھا لیکن آزادی مارچ جن تاریخوں میں شروع ہورہا تھا دونوں بڑی پارٹیوں کو اس سے اتفاق نہیں تھا، مسلم لیگ (ن) چاہتی تھی کہ اسے دسمبر تک ملتوی کردیا جائے، جب کہ پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ آزادی مارچ آئندہ سال مارچ میں ہونا چاہیے لیکن مولانا صاحب اپنے پروگرام پر اَڑے رہے۔ یہ وہ دن تھے جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا، مقبوضہ علاقے میں کرفیو لگادیا گیا تھا اور ذرائع ابلاغ پر پابندی لگا کر کشمیریوں کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کردیا گیا تھا۔ عالمی میڈیا اس صورت حال کو ہائی لائٹ کردیا تھا اور پاکستانی میڈیا بھی بھارت کو ایکسپوز کرنے میں مصروف تھا کہ مولانا نے آزادی مارچ شروع کرکے پاکستانی میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ ملک کے لبرل اور سیکولر عناصر بھی مولانا کی حمایت میں میدان میں آگئے۔ میڈیا میں مولانا کے حق میں اتنا شور برپا ہوا کہ کشمیر ایشو بالکل پس منظر میں چلا گیا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا یا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو فری ہینڈ دیا گیا تھا اور مولانا نے پاکستان کو آزادی مارچ میں الجھا کراسے کشمیر کی صورت حال سے لاتعلق کردیا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ مولانا اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہیں گئے لیکن وہ یہ بتانے کو تیار نہیں ہیں کہ انہیں کیا دیا گیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ مولانا کو بھی وہی کچھ دیا گیا ہے جو زرداری نے علامہ طاہر القادری کو دیا تھا۔ مولانا کے دھرنے نے دھرنے کی سیاست کو بالکل فیل کردیا ہے اب شاید کوئی جماعت دھرنے کا نام لینے کو تیار نہ ہو۔