خان صاحب یہ نہیں چلے گا

154

وزیر اعظم عمران خان ہزارہ موٹر وے کے افتتاح کے موقع پر خوب گرجے اور برسے، ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے منصف اعلیٰ سے بھی مخاطب ہوئے اور کہا کہ امیر اور غریب کے لیے انصاف میں فرق ختم ہونا چاہیے‘ بالکل درست بات، یہ جائز مطالبہ ہے اور مدینہ کی ریاست میں تو یہ ہونا ہی چاہیے لیکن خرابی اور کمزوری کہاں ہے؟ عدلیہ میں ہے یا حکومت میں ہے؟ عدلیہ تو اسی قانون کے تابع رہے گی اور ہے جو قانون ملک کی پارلیمنٹ نے بنا رکھے ہیں۔ انصاف کے لیے پارلیمنٹ نے عدلیہ کی کتنی مدد کی ہے؟ تحریک انصاف ایک نہیں بے شمار دعوے لے کر انتخابی مہم میں اتری تھی کہا تھا دو نہیں ایک پاکستان لیکن اس وقت کیا ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کی کابینہ میں تو بے شمار چہرے ہیں جو اس راہ میں رکاوٹ ہیں‘ کس کس کا نام لیں، کابینہ کے سربراہ تو وزیر اعظم خود ہیں پھر گلہ کس سے کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ شیشے کو پارہ لگا دیا جائے تو یہ آئینہ بن جاتا ہے اور یہی آئینہ جب کسی کو دکھا دیا جائے تو اس کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ ذرا کابینہ میں دیکھیے احتساب کا نام آتے ہی کتنے ہیں جن کے چہرے مرجھا جاتے ہیں اور ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ نندی پور کیس ایک عمدہ مثال ہے۔ سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کیس بھگت رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کی کابینہ کے ایک رکن اسی کیس میں بری ہوچکے ہیں۔ ذرا معلوم تو کیجیے کہ وہ آج کل کس پارٹی میں ہیں۔ انہیں تحریک انصاف کی صفوں میں تلاش کیجیے وہیں مل جائیں گے۔
اسلام آباد میں بہت سی بستیاں ہیں اور بے شمار وسیع و عریض گھر‘ بنی گالہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اسلام آباد میں بہت سے گھر گرائے گئے کہ تجاوزات ہیں‘ قانون کے مطابق ان گھروں کی تعمیر نہیں ہوئی‘ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کیا ہے اس گھر کے بارے میں‘ حکومت وہ فیصلہ تو سامنے لائے‘ جناب وزیر اعظم‘ آپ کی حکومت کے دوران بھی ملک میں قبضہ مافیا پوری طرح سرگرم ہے۔ لاہور جاکر معلوم کیجیے کہ لوگ ان کے ہاتھوں کتنے پریشان ہیں ان میں کتنے ہیں جو اس وقت تحریک انصاف کی صفوں میں ہیں؟ حضور حد تو یہ ہے کہ لاہور میں اب سرکاری ملازم بھی قبضہ مافیا بن چکے ہیں‘ مدینہ کی ریاست کے تصور کے نیچے ذرا دیکھیے کیا ہو رہا ہے‘ مگر حکومت کو تو فرصت ہی نہیں۔ تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ چن چن کر انصاف ہوگا‘ بالکل یہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے، احتساب واقعی چن چن کر ہی ہو رہا ہے، جو لکیر کے اس پار ہے بس وہ قابل احتساب ہے اور جو اپنی صفوں میں ہے‘ پشاور میٹرو بس‘ ایک بہت بڑا سوال ہے‘ اس کا جواب کون دے گا‘ الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس میں تو سربراہ حکومت نے لکھ کر دیا ہے کہ وہ عام شہری کو جواب دہ نہیں ہیں۔
شاہ محمود قریشی پارلیمنٹ کو اپنا سیاسی کعبہ کہتے ہیں‘ تحریک انصاف اسے کتنی اہمیت دیتی ہے اس کا اندازہ وزیر اعظم کی پارلیمنٹ میں حاضری سے ہو رہا ہے‘ سوا سال میں محض تین چار بار‘ اور حکومت چلی ہے تبدیلی لانے‘ دو چار نام چھوڑ کر باقی سب وزراء وہی ہیں‘ جنہیں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ اور غیر جمہوری حکمران تک استعمال کرچکے ہیں۔ حکومت سے کراچی بھی سوال کر رہا ہے کہ بلدیہ ٹائون سانحہ کے مجرم کہاں ہیں؟ لاہور سوال کر رہا ہے کہ قبضہ مافیا کو کس کی سرپرستی حاصل ہے۔ پشاور سوال کر رہا ہے کہ پرویز خٹک حکومت کے دور میں احتساب قانون کیوں ختم کیا گیا تھا؟ کوئٹہ سوال کر رہا ہے سی پیک سے صوبے میں ترقی آنا تھی یہ منصوبہ کہاں گیا؟ سری نگر رو رہا ہے‘ جناب نے کہا تھا کشمیر کا وکیل بنوں گا‘ دنیا میں جائوں گا‘ ایک تقریر کے بعد خاموشی‘ مکمل سکوت‘ اندھیرا چھا چکا ہے‘ کشمیر کی محترم آواز سید علی گیلانی دو خط لکھ چکے ہیں اور جواب کے منتظر ہیں‘ اسلام آباد میں نہ قلم دستیاب ہے اور نہ روشنائی‘ کہ ان خطوں کا جواب دیا جاسکے۔ وزیر اعظم صاحب‘ ذرا سنبھل کر‘ آپ کے الفاظ کی بہت قیمت ہے‘ کیونکہ آپ وزیر اعظم ہیں‘ یہ گلے شکوے عدلیہ سے نہ کریں‘ بطور انتظامیہ آپ کے پاس اختیار ہے‘ قانون سازی کیجیے‘ پارلیمنٹ میں آئیے‘ کس نے آپ کا ہاتھ روکا ہوا ہے کھل کر بتائیے۔ حکومت میں آنے سے قبل دعویٰ تھا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائوں گا‘ اب آپ کی حکومت کہہ رہی ہے کہ پیسہ قانونی ذرائع سے باہر گیا ہے‘ جناب نے کہا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو کٹہرے میں لائوں گا‘ پھر خود ہی یہ اسکیم بھی لے آئے، سیاست دانوں اور خصوصاً اپوزیشن کی گردن پتلی ہے اس لیے قابو میں جلدی آجاتی ہے‘ بیوروکریسی نے جب نیب کے خلاف گٹھ جوڑ کیا تو نتیجہ کیا نکلا قوم کو بتائیے کھل کر بتائیے کہ کیا ہوا؟ ہزارہ میں کیا جانے والا آپ کا خطاب خود آپ کے لیے اتنے سوال چھوڑ گیا ہے جسے سمیٹتے ہوئے پانچ سال گزر جائیں گے۔ تحریک انصاف کے جہاز کی حالت یہ بن چکی ہے کہ ایک لطیفہ یاد آرہا ہے‘ پرواز اپنی رفتار اور اونچائی کے اعتبار سے درست جارہی تھی‘ مسافر بھی مطمئن تھے کہ اچانک کاک پٹ سے پائلٹ کی آواز آئی کہ اگر پاگل خانے والوں کو پتا چل جائے کہ میں وہاں سے بھاگ کر یہاں جہاز چلا رہا ہوں تو کتنا مزہ آئے گا؟ یہ سنتے ہی مسافروں پر جو گزری ہوگی وہ ناقابل بیان ہے‘ پوری قوم اس وقت تو مطمئن ہے‘ لیکن اگر انہیں کوئی ایسی آواز آگئی تو کیا ہوگا… کبھی سوچا؟