روزنامہ جسارت کی ایک خبر کے مطابق میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف سے ملاقات میں کہا ہے کہ زندگی اور موت اللہ کی امانت ہے اور وہ کسی طور بھی حکمرانوں کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ میاں نواز شریف نے فرمایا کہ انہوں نے ہمیشہ اصولوں اور نظریے کی سیاست کی ہے۔ (روزنامہ جسارت 14 نومبر 2019ء) اس سے قبل میاں شہباز شریف کے فرزند ارجمند سلیمان شریف ایک ٹویٹ میں فرما چکے ہیں کہ کیسی ڈھیل اور کیسی ڈیل ہمارے لیے ہمارا رب ہی کافی ہے۔ کاش سلیمان شریف یہ بھی بتادیتے کہ ان کا رب وردی والا ہے یا عرف عام میں وہ سویلین کہلاتا ہے۔
میاں نواز شریف کی تاریخ یہ ہے کہ قوم نے ہمیشہ انہیں کسی نہ کسی کے آگے جھکا ہوا پایا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی کے آگے جھکے ہوئے تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب قوم نے انہیں جنرل پرویز کے آگے جھکے ہوئے پایا۔ میاں صاحب جنرل پرویز کے آگے نہ جھکتے تو وہ جیل سے رہا ہو کر خاندان سمیت سعودی عرب نہیں جاسکتے تھے اور سات سال کے لیے سیاست سے باہر نہیں ہوسکتے تھے۔ تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ میاں نواز شریف نے جنرل پرویز کے ساتھ معاہدہ کیا جس میں طے پایا کہ میاں نواز شریف یا ان کا خاندان دس سال تک پاکستان اور پاکستان کی سیاست سے باہر رہے گا۔ لیکن میاں نواز شریف کی اصول پسندی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سات سال میں ہی معاہدے کو توڑ دیا یہاں تک کہ وہ اس بات ہی سے مکر گئے کہ ان کے اور جنرل پرویز کے مابین کوئی معاہدہ ہوا ہے۔ چناں چہ معاہدے کے عرب ضامنوں کو پاکستان آکر وہ تحریری معاہدہ دنیا کو دکھانا پڑا جس پر شریفوں کے دستخط تھے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ محلاتی سازشوں کے لیے بدنام ہے۔ جنرل ایوب جنرل یحییٰ کے محسن تھے مگر ایک وقت ایسا آیا کہ جنرل یحییٰ چند سینیٹر اور فوجی اہلکاروں کو لے کر جنرل ایوب کے پاس پہنچے اور ان سے صاف الفاظ میں کہا کہ جناب صدر اب آپ کو اقتدار سے الگ ہونا ہوگا۔ جنرل ضیا کے طیارے کا حادثہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی محلاتی سازش کا نتیجہ تھا۔ اس لیے کہ جنرل ضیا الحق کے طیارے تک کسی عام آدمی یا عام دہشت گرد کو رسائی نہیں مل سکتی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے جنرل کیانی کو آگے بڑھایا اور انہیں اپنا جڑواں یا Twin قرار دیا۔ ان باتوں کا میاں صاحب سے ایک تعلق ہے۔ جنرل پرویز نے تو جنرل کیانی کو اپنا جڑواں قرار دے دیا مگر جنرل کیانی نے میاں صاحب کے ساتھ ساز باز کرکے جنرل پرویز کے خلاف وکلا کی وہ تحریک برپا کی جو بالآخر جنرل پرویز کے اقتدار کو نگل گئی۔ تاریخ کے اس مرحلے پر میاں نواز شریف جنرل کیانی کے آگے جھکے ہوئے پائے گئے۔ میاں صاحب کو جو تازہ ترین ڈھیل اور ڈیل عطا ہوئی ہے وہ بھی میاں صاحب کے کسی کے آگے جھک جانے ہی کا حاصل ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ میاں نواز شریف، مریم نواز اور پوری (ن) لیگ کو مدتوں سے ’’خلائی مخلوق‘‘ کا ذکر کرتے نہیں سنا گیا۔ جب سے میاں صاحب کی ڈیل ہوئی ہے پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں بھی اچانک ’’انصاف پسند‘‘ ہوگئی ہیں ورنہ میاں صاحب نے عدالتوں کے خلاف بھی ایک مہم چلائی ہوئی تھی۔
میاں نواز شریف کو اہل پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے آگے بھی جھکا ہوا ہی دیکھا۔ بھارت کے سابق وزیراعظم اندر کمار گجرال نے ایک بار کہا تھا کہ میاں نواز شریف انہیں رات گئے ان کے بیڈ روم میں فون کردیتے تھے۔ آخر پاکستان کے وزیراعظم کو کیا پڑی ہے کہ وہ بھارت کے وزیراعظم کو اس کے بیڈ روم میں فون کرے؟ تجزیہ کیا جائے تو اندر کمار گجرال کے حوالے سے میاں صاحب کا طرزِ عمل ’’فدویانہ‘‘ تھا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ نریندر مودی پہلی بار بھارت کا وزیراعظم بنا تو اس نے اپنی تقریب حلف برداری میں میاں نواز شریف کو طلب کیا اور میاں صاحب مودی کے دربار میں حاضر ہوگئے اور ثابت کیا کہ جس طرح نیپال اور بھوٹان بھارت کی باج گزار ریاست ہے اسی طرح میاں صاحب پاکستان کو بھی بھارت کی باج گزار ریاست بناسکتے ہیں۔ بھارت کے آگے میاں صاحب کے جھکنے کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی کے بقول میاں شہباز شریف بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے پر مذاکرات فرما رہے تھے۔ یہ میاں صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ وہ پنجاب کے رہنما ہیں ورنہ کسی اور صوبے کا سیاسی رہنما یہ حرکت کرتا تو اس کا پورا خاندان اب تک مارا جاچکا ہوتا۔
پاکستانی قوم نے میاں صاحب اور ان کی جماعت کو ہمیشہ مغرب کے آگے بھی جھکا ہوا دیکھا۔ خواجہ آصف میاں صاحب کے دوست اور نواز لیگ کے اہم رہنما ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک دورہ امریکا میں امریکیوں کو یقین دلایا کہ نواز لیگ پی ٹی آئی سے زیادہ ’’لبرل‘‘ ہے۔ میاں صاحب خود لبرل ازم کے پرستار نہ ہوتے تو وہ خواجہ آصف کو اب تک پارٹی سے نکال چکے ہوتے۔ مگر خواجہ آصف اس وقت شہباز شریف کے بعد میاں صاحب کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میاں صاحب خود کو واقعتاً لبرل سمجھتے ہیں۔ ان کی سیاست سے بھی ان کے لبرل ہونے کی شہادتیں مل جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر میاں صاحب کے گزشتہ دور حکومت میں اقوام متحدہ نے میاں صاحب کی حکومت سے کہا کہ آپ اپنے ملک میں زنابالرضا کو قانونی قرار دے دیں۔ میاں صاحب کی حکومت نے اس تجویز کو مسترد کرنے کے بجائے اسے ’’قابل غور‘‘ قرار دیا۔ یہ مغرب کے آگے جھکنے ہی کی ایک صورت تھی، اس لیے کہ مسلم دنیا میں زنابالرضا کو عام کرنا مغرب ہی کا ایجنڈا ہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت نے ختم نبوت کے تصور پر بھرپور حملہ کیا۔ اس حملے کی مزاحمت نہ ہوئی تو میاں صاحب نے ختم نبوت کے تصور کو روندنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی۔ میاں صاحب یہ کام کرتے ہوئے بھی مغرب کے آگے جھکے ہوئے تھے۔ میاں صاحب کو ویسے تو عمران خان زہر لگتے ہیں اور جسٹس ثاقب نثار انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے مگر جب جسٹس ثاقب نثار، عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ نے مغرب کے دبائو پر توہین رسالت کی مرتکب ملعونہ آسیہ کو رہا کیا تو میاں صاحب نے اس ناپاک عمل کی بھرپور حمایت کی۔ یہ کرتے ہوئے بھی میاں صاحب مغرب کے سامنے رکوع کی حالت میں تھے۔ لیکن اب میاں صاحب دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ حکمرانوں کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آخر میاں صاحب ساری دنیا کے آگے کیوں جھکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اقبال اپنے ایک شعر میں دے چکے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یعنی جو انسان خدا کے سامنے جھک جاتا ہے وہ پھر کسی کے آگے نہیں جھکتا اور جو خدا کے آگے نہیں جھکتا اسے ہر جگہ سر جھکانا پڑتا ہے۔
میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے مگر میاں صاحب اور ان کے خاندان نے جن قومی وسائل کی لوٹ مار کی وہ وسائل بھی اللہ اور اللہ کے بندوں کی امانت تھے۔ اس امانت میں میاں صاحب اور ان کے خاندان نے جی بھر کر خیانت کی مگر زندگی اور موت کے سلسلے میں میاں صاحب کو خیال آرہا ہے کہ یہ تو اللہ کی امانت ہیں۔ شریفوں کی خاندانی روایات کو دیکھا جائے تو شریفوں کو مذہب کا لفظ استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جو خاندان زنابالرضا کی حمایت کرے، جو خاندان ختم نبوت پر حملے کرے اسے مذہب پر بات کرنے کا کیا حق ہے؟ چودھری شجاعت میاں صاحب کے پرانے ساتھی ہیں، انہوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ کئی برس قبل جب ان کے اور شریف خاندان کے درمیان معاہدہ طے پایا تو شہباز شریف قرآن مجید اُٹھا لائے اور بولے کہ یہ قرآن ہمارے اور آپ کے درمیان اس بات کا ضامن ہے کہ ہم آپ سے کیے گئے وعدوں کو پورا کریں گے مگر چودھری شجاعت کے بقول شریفوں نے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی کسی شق پر بھی عمل نہ کیا۔ اسی طرح شریف خاندان نے قرآن پر جھوٹ بولا۔ جو خاندان قرآن پر جھوٹ بولے اسے اسلام کا نام لینے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
شریف خاندان کو میاں نواز شریف کی علامت اور اس سلسلے میں عمران خان کی حکومت کے رویے کے حوالے سے ’’انسانیت‘‘ بہت یاد آئی۔ انسانیت بڑی اچھی چیز ہے۔ مولانا روم نے فرمایا ہے کہ انسان کا احترام ہی اصل تہذیب ہے۔ مگر یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جس زمانے میں میاں صاحب بے نظیر بھٹو کے حریف تھے اس زمانے میں میاں صاحب نے بے نظیر کے ’’امیج‘‘ کو خراب کرنے اور انہیں انتخابات میں شکست دینے کے لیے بے نظیر کی خود ساختہ ننگی تصاویر بنوائیں اور انہیں پنجاب میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے زمین پر پھنکوایا تا کہ لوگ تصاویر دیکھیں اور بے نظیر سے نفرت کریں۔ آخر یہ کرتے ہوئے شریفوں کو اخلاق اور انسانیت کیوں یاد نہ آئی۔ میاں صاحب کی ذاتی تاریخ میں ایک چیز ’’چھانگا مانگا‘‘ بھی ہے۔ میاں صاحب نے چھانگا مانگا میں منتخب افراد کو ٹھیرایا، ان کے ضمیر کو خریدا اور چھانگا مانگا میں قید کیے گئے افراد کو میاں صاحب نے شراب اور طوائفیں مہیا کیں۔ ایسا کرتے ہوئے میاں صاحب کو نہ اسلام یاد آیا نہ انہیں انسانیت یاد رہی۔ یہ ہے میاں صاحب کی ’’نظریے‘‘ اور ’’اصول‘‘ کی سیاست۔ میاں صاحب کی نظریے اور اصولوں کی سیاست کا ایک حاصل یہ ہے کہ انہوں نے جسٹس سجاد کے زمانے میں سپریم کورٹ پر حملہ کرایا اور شہباز شریف جسٹس قیوم کو مختلف مقدمات کے سلسلے میں ’’احکامات‘‘ دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ اس تناظر میں میاں صاحب کی صورت اور ان کی تصویر دیکھ کر احمد نوید کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے
اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے