مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایوب خان کے زمانے میں پاک چین دوستی زندہ باد کی ابتدا کی گئی تھی۔ ایوب خان جو نہ صرف فیلڈ مارشل تھے بلکہ وہ پاکستان کے صدر ہی نہیں شہنشاہوں کے شہنشاہ بھی تھے۔ فوجی حکمران تھے اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے اور ان کے منہ سے جو پھوٹ جاتا تھا قانون کی کتابوں میں پتھر کی لکیر کی طرح لکھ دیا جاتا تھا لیکن میں حیران ہوں کہ ایک ایسے حکمران کے چاہتے ہوئے بھی پاک چین دوستی کیوں فرغ نہ پا سکی اور ان کے دور میں ان کے علاوہ وہ کون سی طاقتیں تھیں جو ان کی راہ کی دیوار بنیں اور پاک چین دوستی پروان نہ چڑھ سکی۔
ذوالفقار علی بھٹو جب بچے کھچے پاکستان کے حکمران بنے تو ان کا بھی نعرہ پاک چین دوستی ہی تھا بلکہ ان کے دور میں یہ نعرہ جس شدت سے اٹھایا گیا وہ ایوبی شہنشاہی دور میں بھی نہیں اٹھایا گیا۔ اس نعرے کے ساتھ اخلاص کی دلیل یہ تھی کہ بھٹو صاحب نے ماؤزے تنگ کے سے اسٹائل میں اپنے بدن پر کوٹ زیب تن کیا اور پھر ان کی دیکھا دیکھی یہی تراش خراش اس درجہ مقبول ہوئی کہ وہ عوام کے دلوں تک سرائیت کر گئی۔ ان کے نعرہ لگانے کی دیر تھی کہ پاکستان میں چین کے خلاف ایک طوفان بپا ہو گیا۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے لے کر گلی کوچوں تک مخالفت کا ایک سیلاب تھا جو گھر گھر داخل ہو گیا۔ اس مخالفانہ طوفانِ بلا خیز میں ہماری کئی سیاسی اور مذہبی پارٹیاں بھی شامل ہو گئیں یہاں تک کہ چین کے انقلاب اور ان کی تہذیب کے دردناک اور شرمناک قصے مارکیٹ میں پھیلا دیے گئے جن میں سے کچھ تو ایسے بھی تھے جن کو گھر کی بہو بیٹیوں کے سامنے بیان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کی طرح سوشلزم کو بھی اسلامی قرار دینے کی مذموم کوشش کی گئی۔ اس کوشش کے نتیجے میں لوگ بیشک ’’کامریڈ‘‘ بن گئے مگر نہ تو پاکستان کی معیشت کو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی بھینٹ چڑھایا جاسکا اور نہ ہی چین سے ہماری قربت بڑھ سکی۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی پاکستان کی پالیسی بھارت دشمنی کے اصولوں پر استوار کی گئی اور اس دشمنی کو اس حد تک برقرار رکھا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کی تجارتی لین دین تک کو پاکستان دشمنی میں شمار کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ 72 برسوں میں ہم نے جنگوں کے سوا اور کوئی تاریخ رقم نہیں کی اور پھر المیہ یہاں تک جا پہنچا کہ مشرقی پاکستان، خواہ ہماری داخلی پالیسیوں کی وجہ سے یا بھارتی سازشوں کی وجہ سے، پاکستان سے علیحدہ ہوگیا اور اس طرح 1971 میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ اس کے بعد مغربی پٹی کے حکمرانوں نے متعدد بار اس بات کی کوشش کی کہ برسوں پرانی دشمنی کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی فضا کو فرغ دیا جائے تاکہ تجارتی تعلقات کو فرغ دے کر اپنی اپنی بدحال معیشت کو بڑھوتری دے کر ایشیا کے مضبوط ممالک میں شامل ہو سکیں۔ اس سلسلے میں اگر کوئی سب سے بڑی رکاوٹ تھی تو وہ کشمیر تھا چنانچہ دوستی کو فرغ دینے کے لیے پہلی کوشش ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئی اور ایک معاہدہ کیا گیا جو ’’شملہ معاہدے‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بھارت سے قریب ہونے کی اس کوشش کو کچھ نادیدہ قوتوں نے پسند نہ کیا اور غالباً بھارت سے قربت بڑھانے کے اس عمل کو پاکستان نے پاکستان دشمنی سمجھتے ہوئے بھٹو دور حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ بھارت سے قربت کی چاہت نہ صرف سول حکمرانوں کے دل میں مچلتی رہی بلکہ عسکری حکمرانوں کے دل بھی اسی جانب مائل نظر آئے۔ بھارت سے قربت کی کوششیں نواز شریف اور بینظیر کے پہلے اور دوسرے ادوار میں بھی نظر آئیں لیکن نہ تو بھارت سے دوستی کو عوامی سطح پر اچھی نظروں سے دیکھا گیا اور نہ ہی عسکری حلقوں کو یہ بات پسند آئی اس لیے ہر اٹھایا جانے والا قدم موثر ثابت نہ ہوسکا اور دشمنی کی جو دیوار 1947 میں کھڑی ہو چکی تھی اْسی مضبوطی کے ساتھ جمی رہی۔
پرویز مشرف کے دور میں ایک بار پھر اس بات کی کوشش کی گئی کہ بھارت سے کشیدگی کو گھٹایا جائے۔ عوام اور مبصرین کو ہمیشہ اس بات کی شکایت رہتی ہے کہ کچھ نادیدہ قوتیں سول حکمرانوں کو وہ کچھ کرنے نہیں دیتیں جو وہ چاہتے ہیں جس میں پاک چین دوستی اور بھارت سے تجارتی لین دین بھی شامل ہے لیکن پرویز مشرف جو خود نادیدہ قوتوں کے سربراہ تھے، انہوں نے بھی بہت مخلصانہ طریقے سے اس بات کی کوشش کی کہ بھارت سے امن کی آشا کی کوئی کرن پھوٹے لیکن ان کو بھی اپنی کوشش کے سلسلے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اصل رکاوٹ اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ بین الاقوامی ’’مافیا‘‘ ہے جس کی وجہ سے نہ تو آپ اپنی مرضی و منشا کے مطابق پاک چین دوستی اور بھارتی قربت اختیار کر سکتے ہیں اور نہ ہی کشمیر کے سلسلے میں اپنی مرضی کے مالک بن سکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے آخری دور میں بھی یہی بات دیکھنے میں آئی کہ بھارت کو قریب لانے کی کوشش کی گئی لیکن مسلم لیگ ن کو ’’اپنی‘‘ مرضی کے مطابق بھارت کو قریب لانے کی کوشش نے پاکستان میں ایک عجیب و غریب نعرے کو فرغ دیا اور وہ یہ نعرہ تھا کہ ’’جو مودی کا یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت سے قریب ہونے کے آثار معدوم سے معدوم تر ہوتے گئے لیکن ایک محاذ پر مسلم لیگ ن کو بہت بڑی کامیابی ہاتھ آئی اور اس کامیابی کو ’’سی پیک‘‘ کا نام دیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان کی ایک نئے دور میں داخل ہونے کی امیدیں پیدا ہوئیں لیکن لگتا ہے کہ بین الاقوامی مافیا اس معاہدے سے ناخوش ہے جس کی وجہ سے موجودہ حکومت اب تک سی پیک کے سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت کرتی نہیں دکھائی دے رہی بلکہ وہ اس معاہدے کی وجہ سے سخت خلجان میں مبتلا ہے کہ آیا وہ اسے برقرار رکھے یا بین الاقوامی مافیا کی سنے۔
باقی صفحہ11نمبر1
حبیب الرحمن
اسی دوران پاکستان ایک حادثے کا شکار ہوا اور کشمیر کے سلسلے میں بھارت کا سارا چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ اول اول بھارت نے اپنے ہی آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کے قانون کو تبدیل کردیا اور پھر کچھ ہی عرصے بعد پوری وادی کو اپنے وفاق کا حصہ بناتے ہوئے اپنا ترنگا وادی میں لہرا دیا۔ بھارت کے اس اقدام کے خلاف جب کشمیریوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا تو وہاں 9 لاکھ فوج کی مدد سے فتح کے جھنڈے گاڑ کر کرفیو لگا دیا گیا جس کو اب 100 دن سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
بھارت جس سے آج ہم کرتارپور کی راہداری کھول کر محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں تو آج وہ نعرہ کہ جو مودی کا یار ہے غدار ہے غدار ہے کیوں بلند نہیں ہو رہا۔ اگر بھارت سے قربت ہماری معیشت کے لیے بہت اچھے نتائج کی حامل تھی تو یہ بات ہماری عقل میں 72 برس پہلے کیوں نہیں آئی۔ اگر چین پاکستان کے لیے اتنا ہی ضروری ہے تو اگر یہی بات ایوب خان یا بھٹو دور میں مان لی جاتی تو آج پاکستان ترقی کے کس عروج پر ہوتا۔ اسی طرح اگر کھوکھراپار اور بھارت کی جانب جانے والی دیگر راہداریاں 72 سال سے کھلی ہوئی ہوتیں تو دونوں ممالک معیشت کے میدان میں کس مقام پر کھڑے ہوتے اور اگر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ اور شہ رگ قرار دیکر اس کی خاطر چار چار جنگیں نہ لڑی ہوتیں تو پاکستان بے شمار عسکری، جانی و مالی نقصانات سے کتنا محفوظ ہوگیا ہوتا۔
یہ وہ ساری باتیں ہیں جو مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آئیں کہ آخر ہم اتنے ’’زود پشیمان‘‘ کیوں ہیں کہ کئی دہائیوں بعد ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر فلاں کام فلاں سن میں کر لیا جاتا تو کتنا اچھا تھا۔ ویسے اصل بات یہ ہے کہ پورے پاکستان کا یہ وتیرہ ہے کہ جب مرض حد سے بڑھ جاتا ہے اور مریض لب دم ہوچکا ہوتا ہے تب ہم اسے اسپتال میں داخل کرتے ہیں اور جب مرض کے بے قابو ہوجانے پر مریض مر جاتا ہے تو ہم اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو گالیاں دینے لگتے ہیں اور موت کی ساری ذمے داری اسپتالوں اور ڈاکٹروں پر ڈال دیتے ہیں۔ میں تو اتنا ہی جانتا ہوں کہ ہم بین الاقوامی پالیسیوں پر عمل کرتے کرتے تباہی و بربادی کے ایسے دہانے تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے نہ تو دنیا کا کوئی اسپتال اور ڈاکٹر ہمارا علاج کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ہمارے سانسوں کی بحالی کا ضامن بن سکتا ہے اس لیے کہ ہم نے اللہ کو اپنا ضامن ماننے کے بعد دنیا بھر کے پیروں فقیروں سے چھاڑ پھونک کرانا پسند کیا۔ اب دوائیں ہوں یا دعائیں، ہم ان سب مراحل سے بہت دور نکل چکے ہیں۔