ایک تھے الطاف حسین، کیا آدمی تھے، جو کچھ اکثر کہا کرتے تھے اس کا الٹ کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ ’’میں ڈرتا ہوں نہ جھکتا ہوں‘‘۔ فلسفہ محبت پر انہیں عبور حاصل تھا، دراصل وہ نفرت کو محبت سے منسوب کرکے ’’کام‘‘ چلایا کرتے تھے۔ ویسے ایسا کرنے کی انہیں ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ منفی باتوں اور کردار کا اچھا خاصہ تجربہ رکھتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو محب وطن اور امن پسند بھی کہا کرتے تھے مگر یہ دونوں خوبیاں دیکھنے کے لیے خصوصی طور پر مہاجر ترستے رہے۔ مگر اب الطاف جسمانی، ذہنی اور زبانی طور پر ’’انتقال‘‘ کر چکے ہیں۔ وہ اپنے مخالفین کو اکثر دھمکی دیا کرتے تھے کہ اس وقت سے ڈریں ’’جب ہیں سے تھے ہوجائیں گے‘‘۔ اب وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے تقریباً ’’تھے‘‘ ہوچکے ہیں۔ ’’تھے‘‘ ہونے کے بعد وہ کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ کچھ بھی ہو ہم پا کستانی و مہاجر اردو بولنے والوں کے لیے اب وہ ماضی کا قصہ اور حصہ ہوگئے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں بسنے والوں کو یقین ہے کہ وہ مکافات کے حتمی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
مگر مجھے الطاف حسین سے کوئی غرض نہیں ہے مجھے تو فکر ان تمام لوگوں کی ہے جو ’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے وقت کے ساتھ مال اور جان کی قربانی دیتے رہے اور اب بھی احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ الطاف سیاسی طور پر دوبارہ زندہ ہوجائیں گے بلکہ فعال بھی ہوجائیں گے۔ یہ لوگ الطاف حسین کو اپنا صرف قائد ہی نہیں بلکہ روحانی باپ تک سمجھتے تھے۔ مگر وہ الطاف حسین اب خود اپنی منزل کی تلاش میں بھارتی وزیراعظم اور مْسلمانوں کے دشمن نریندر مودی سے انڈیا میں پناہ اور فنڈز حاصل کرنے کے لیے ’’گڑ گڑا رہے ہیں‘‘۔ انہیں ایسا کرتے ہوئے یقینا اپنی وہ باتیں یاد آرہی ہوگی جب وہ کہا کرتے تھے ’’میں نہ جھکتا ہوں اور نہ ہی بکتا ہوں‘‘۔
روزنامہ جسارت میں 19 نومبر کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے بانی و سابق قائد الطاف حسین اپنی سیاسی زندگی کے باقی بچے کچھے ایام ’’تاریخی پریشانی‘‘ میں گزارنے پر مجبور ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے لندن میں موجود ذرائع کا کہنا ہے الطاف حسین بھارت کے وزیر اعظم و کٹر ہندواور مسلمانوں کے مخالف نریندر مودی کی جانب سے ان کی سیاسی پناہ اور مالی مدد کی درخواست پر کوئی جواب نہ دینے پر شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ الطاف حسین کو اس بات کا خدشہ لاحق ہوچکا ہے کہ انہیں قید کی سخت سزا سنادی جائے گی۔ خیال رہے کہ بانی متحدہ الطاف حسین پر کراون پراسیکیوشن سروسز (سی پی ایس) نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کیے ہوئے ہیں جن کا ٹرائل اگلے سال ہوگا۔ الطاف کا پاسپورٹ ضمانتی شرط کے طور پر برطانوی پولیس نے اپنی تحویل میں لیا ہوا ہے۔ جبکہ انہیں کسی بھی ملک کے لیے سفری دستاویز کی درخواست دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ خیال رہے کہ الطاف حسین نے لندن کی عدالت سے ضمانت کی شرائط میں نرمی کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سے درخواست کی ہے کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بھارت میں پناہ اور مالی امداد دی جائے۔ کیونکہ ان کے آباو اجداد بھارت میں دفن ہیں اور میں ان کی قبروں پر جا کر فاتحہ خوانی کرنا چاہتا ہوں۔ اس ضمن میں انہوں نے اس درخواست کے بعد اپنے کسی مشیر کے مشورے پر آن لائن خطاب کیا جس میں انہوں نے بھارتی وزیر اعظم مودی سے کہا تھا کہ وہ بھارت جاکر وہیں رہنا چاہتے ہیں اس لیے انہیں بھارت میں سیاسی پناہ دی جائے۔ لندن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق الطاف حسین کو محض سزا کا خوف نہیں ہے بلکہ اصل ڈر انہیں اپنی بنائی ہوئی تحریک کے بعض باغی افراد کی طرف سے قاتلانہ حملے کا بھی ہے۔ الطاف کو ڈر ہے کہ ساوتھ افریقا میں موجود بعض باغی جو ان دنوں وہاں سے لندن آچکے ہیں قاتلانہ حملہ کردیں گے۔ یادرہے کہ بانی متحدہ قومی موومنٹ کے 19 ساتھی جنوبی افریقا میں گزشتہ دو سال کے دوران یکے بعد دیگرے نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل کیے جاچکے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے ساوتھ افریقا منتقلی کا ارادہ بھی ترک کرکے بھارت میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن چونکہ توقع کے باوجود نریندر مودی سرکار کی جانب سے ان کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے اس لیے الطاف کی ذہنی کیفیت روز بروز خراب ہورہی ہے اب انہوں نے خواب آور گولیوں کا استعمال بھی بڑھادیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کو اپنے گزر اوقات کے لیے بھی فنڈز کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جس کی وجہ بھارت سے ان کی مالی مدد کا سلسلہ بند ہونا بھی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت آئندہ الطاف حسین سے انڈیا کی ریاست حیدرآباد دکن اور دیگر شہروں میں موجود مسلمانوں کے خلاف سازش کرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ الطاف نے بھارت میں پناہ کی یہ درخواست انڈین عدالت عظمیٰ کی طرف سے بابری مسجد کا فیصلہ سنائے جانے کے فوری بعد کی ہے۔ جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ را اب بھی بانی متحدہ قومی موومنٹ کے رابطے میں ہے۔ الطاف حسین نے بھارت کے مسلمان رہنما اسد الدین اویسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کو ہندو راج قائم کرنے کا حق حاصل ہے اور اگر اویسی اور دیگر کو بھارت پسند نہیں ہے تو انہیں پاکستان چلے جانا چاہیے۔ بابری مسجد کے مسئلے پر بانی متحدہ نے بھارت کے موقف کی تائید کی تھی۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ بانی متحدہ پر تقاریر کے ذریعے پاکستان میں تشدد پر اکسانے کے الزام میں برطانیہ میں مقدمہ چل رہا ہے۔ اس مقدمے کی وجہ سے ان کے سیکڑوں سینئر ساتھی ان سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں۔
الطاف حسین وقت گزرنے کے ساتھ تیزی سے تنہائی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مگر انہیں آج بھی بھارت پر بھروسا ہے کہ وہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔ مگر واقف حال لوگوں کا کہنا ہے کہ الطاف کی ’’ضد بازی اور تشدد پسندی‘‘ کی پالیسی سے تنگ آکر لندن میں ان سے بغاوت کرنے والے ندیم نصرت اور واسع جلیل براہ راست را کے رابطے میں آگئے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر یقین کرلینا چاہیے کہ بھارت یا را کو الطاف کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ واسع جلیل اور ندیم نصرت نے کشمیر کے ایشو پر بات بھارت کی حمایت اور پاکستان کی مخالفت میں اقوام متحدہ کے سامنے مظاہرہ کرکے بھارت کی حمایت کا ثبوت بھی دیا ہے۔