اسرائیل پر نچھاور، امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو ایک اور تحفہ پیش کیا ہے۔ ٹرمپ نے امریکا کی وہ پالیسی ترک کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت پچھلے اکتالیس سال سے امریکا ارض فلسطین پر یہودی بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قانون کے خلاف قرار دیتا آیا ہے۔ 1978 میں امریکا کی وزارت خارجہ نے یہ قانونی رائے دی تھی کہ غرب اردن، غزہ کی پٹی اور شام کی جولان کی پہاڑیوں کے علاقہ پر اسرائیل کا جارحانہ قبضہ ہے اور فلسطین کی سر زمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔ ویسے بھی چوتھے جینوا کنونشن کے تحت کسی قابض طاقت کو اپنے زیر تسلط علاقوں پر اپنی آبادی منتقل کرنے کا حق نہیں ہے۔ امریکا نے اس کنونشن پر دستخط کیے ہیں اور اسی کی بنیاد پر اب تک امریکا کی یہی پالیسی تھی۔ اس وقت ٹرمپ نے امریکا کی یہ پالیسی ترک کرنے کا جو اعلان کیا ہے اس کا اصل مقصد اسرائیل کے وزیر اعظم اور اپنے داماد جاریڈ کوشنر کے قریبی دوست نیتن یاہو کی مدد کرنا ہے جو ستمبر کے عام انتخابات کے بعد ابھی تک حکومت کی تشکیل میں ناکام رہے ہیں۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ اس فیصلہ سے نیتن یاہو کے حق میںرائے عامہ ہموار ہوگی۔ اسی کے ساتھ ٹرمپ کا ایک مقصد اگلے سال کے صدارتی انتخاب میں جیت کے لیے امریکا کے با اثر یہودیوں کی مالی اعانت اور حمایت حاصل کرنا ہے۔
جب سے ٹرمپ برسر اقتدار آئے ہیں وہ اسرائیل پر اپنے تحفوں کی بارش کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال کے آخر میں ٹرمپ نے یروشلم کو جسے فلسطینی اپنا دارالحکومت قرار دیتے ہیں، من مانی کاروائی کرتے ہوئے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تھا اور امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عرب اور مسلم ممالک نے اس فیصلہ کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا لیکن وہ اپنی اپنی مصلحتوں کے پیش نظر خاموش ہو کر بیٹھ رہے۔ نتیجہ یہ کہ اس خاموشی پر ٹرمپ کا سینہ پھول گیا اور انہوں نے گزشتہ مارچ میں اسرائیل کو ایک اور تحفہ پیش کیا اور شام کی جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضہ کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اسرائیل کا علاقہ قراردے دیا۔ اسرائیل جولان کو بے حد اہم سمجھتا ہے کیونکہ یہیں دریائے اردن کا منبع ہے اور اس علاقے پر قبضہ کے ذریعہ دریائے اردن پر اپنا تسلط جما سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ 1967 کی جنگ کے بعد سے وہ جولان پر قابض ہے۔
اب ٹرمپ نے فلسطین کا رہا سہا وجود ختم کرنے کے لیے ارض فلسطین پر یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف امریکی پالیسی ترک کر کے یہودی بستیوں کی تعمیر کو حق بجانب قرار دیا ہے۔ مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں فلسطینیوں کی زمین پر تیرہ ہزار سے زیادہ یہودی بستیاں ہیں جن میں چھ لاکھ تیس ہزار یہودی آباد ہیں۔ ارض فلسطین پر یہودی بستیوں کی تعمیر کے ذریعہ اسرائیل ایک عرصہ سے اپنے توسیع پسند منصوبہ پر عمل پیرا ہے اور فلسطین کے علاقوں میں آبادی کا
تناسب تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ ارض فلسطین پر یہودی بستیوں کی تعمیر در حقیقت بین الاقوامی عدالت انصاف کی نظر میں جنگی جرم ہے لیکن اسرائیل کو اس کی قطعاً پروا نہیں کیونکہ اسے امریکا کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔ اب ٹرمپ کے اقدام سے اسرائیل کے لیے کسی خطرے اور مخالفت کے بغیر یہودی بستیوں کی تعمیر کا راستہ کھل گیا ہے۔ ویسے بھی جب سے ٹرمپ برسر اقتدار آئے ہیں فلسطین کی سر زمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے سے پہلے ارض فلسطین پر یہودیوں کی بستیوں کی تعداد چار ہزار چار سو چھہتر تھی لیکن ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد نومبر 2016 سے لے کر پچھلے سال جولائی تک کے عرصہ میں یہودی بستیوں کی تعدا تیرہ ہزار نو سو ستاسی تک پہنچ گئی۔ صدر ٹرمپ کے داماد جاریڈ کوشنر جو مشرق وسطیٰ میں امریکا کی پالیسیوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ان کا ان یہودی بستیوں کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ لگا ہوا ہے۔
یہودی بستیوں کی تعمیر کی بدولت اس وقت غرب اردن میں فلسطینیوں کے دو تہائی علاقے پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ ان بستیوں کی وجہ سے غرب اردن میں یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ علاقہ بے حد زر خیز ہے اور یہاں زیتوں کے وسیع باغات ہیں۔ اس علاقے کے فلسطینیوں کی شکایت ہے کہ اس علاقے میں تعینات اسرائیلی فوج کی مدد سے یہودی آباد کار فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں اور ان کے مکانات مسمار کر رہے ہیں۔ نابلس سے جنوب مغرب میں ایک گائوں کے رہنے والے ایک فلسطینی غسان النجار کا کہنا ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں یہودی آباد کاروں نے اسرائیلی فوج کی مدد سے ان کی تین ہزار مربع میٹر زمین پر قبضہ کر لیا اور ان کے خاندان کے زیتوں کے تین ہزار سے زیادہ درخت کاٹ دیے۔ غسان النجار کا کہنا ہے کہ ان کے آباو اجداد کے لگائے ہوئے زیتون کے ان درختوں پر ان کا خاندان گزارہ کرتا تھا اور اب وہ بالکل قلاش ہو گئے ہیں۔
گزشتہ ستمبر کے عام انتخابات کے دوراں وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ ان کی جیت کے بعد غرب اردن کی تمام یہودی بستیوں کو اسرائیل کی خود مختاری میں لانے کے لیے قانون منظور کیا جائے گا۔ گو ابھی نیتن یاہو کی حکومت تشکیل نہیں ہوئی لیکن غرب اردن کو جہاں یہودی بستیاں ہیں اسرائیل کا خود مختار علاقہ قرار دینے کے لیے قانون سازی کا منصوبہ زیر غور ہے جس کے بعد غرب اردن کا یہ پورا فلسطینی علاقہ اسرائیل کا علاقہ قرار دے دیا جائے گا اور عملی اور قانونی طور پر فلسطین کے وجود کا خاتمہ ہو جائے گا۔
مسلم ممالک کو اتنی اقتصادی، سیاسی اور فوجی قوت حاصل ہے کہ وہ اسرائیل کے منصوبے کو ناکام بنا سکتے ہیں لیکن اس مقصد کے لیے مسلم ممالک میں اتحاد اور یک جہتی لازمی ہے جس کا افسوس کہ اس وقت دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل ارض فلسطین پر اپنا تسلط جمائے رکھے گا اور فلسطینیوں کو جو پچھلے پچاس سال سے اسرائیل کے محکوموں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں یوں ہی محکوم رہیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کی تقدیر نہ بدل سکے گی۔