دوا ساز کمپنیوں کا شیطانی کھیل

337

فاطمہ عزیز
سارہ فُلرکو کینسر نہیں تھا اس کو صرف کمر درد کی شکایت تھی جو ماضی میں ہونے والے ایک ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اسے مسلسل رہتا تھا ۔ امریکا کی انسیس(Insys) نامی دوا سازکمپنی نے سیل پرسن نے سار ہ کو فین ٹالین (Fentalyn) دوا منظور کروائی اور 14مہینے بعد سارہ اپنے مکان میں مری ہوئی پائی گئی ۔ تحقیقی رپورٹ نے ثابت کیا کہ سارہ کی موت فین ٹالین کی وجہ سے ہوئی ۔ یہ ایک کہانی نہیں ہے ایسی ہزاروں کہانیاں امریکا میں موجود ہیں ۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے اور سب جانتے ہیں کہ امریکا نشہ آور ادویات مثلاً ہیروئن ، مارفین وغیرہ کے استعمال میں سب سے پہلے نمبر پر ہے ۔2018ء کی ریسرچ کے مطابق پاکستان ہیروئن کے استعمال میں دوسرے نمبر پر ہے ۔ امریکا پچھلی دو صدیوں سے نشہ آور ادویات کے استعمال سے ہونے والی اموات کی زد میں ہے اور یہ صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔2017ء میں ہی تقریباً47,000 ہزار لوگ ہیروئن کی زیادتی سے موت کا شکار ہوئے مگر اس سال2019ء میں اموات کی تعداد میں ایک دم کمی آئی ہے جس سے ان کے لیے امید کا راستہ کھلا ہے ۔1990ء سے پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ اموات میں کمی آئی ہو ۔ حکومت کی تحقیق اور ڈیٹا بیس کے مطابق نشہ آور ادویات اور ہیروئن سے مرنے والوں کی تعداد میں2018ء میں5% کمی آئی ہے ۔ گورنمنٹ کا کہنا ہے کہ یہ ان کی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوا ۔ انہوں نے ملک بھر میں آگاہی پروگرامز ترتیب دیے اور ہیروئن اور نشہ آور ادویات کے متعلق پالیسی سخت کی ہے مگر اس کمی کا باعث ایک اور وجہ بھی ہے ۔
امریکا میں ایک نئی نشے کی دوا ایجاد ہوئی جس کا نام فین ٹالین(Fentalyn) ہے ۔ یہ ایک سین تھیٹک اوپیٹ ہے(S ynthetic Opiate) اوپیائوٹس(Opioets) جیسے کہ نام سے معلوم ہوتا ہے اوپیم کی کلاس ہے جس میں نشہ آور ادویات شامل ہیں ۔
بیسویں صدی کے شروع میں ہیروئن اُگائی جاتی تھی ۔ اس کی کاشت ناجائز قرار دے دی گئی تھی ۔ یہ خشخاش کے بیج سے اُگنے والے پھولوں ںسے بنتی ہے ۔ پھولوں کو اوپیم کہتے ہیں ۔ بیسویں صدی میں یہ ایک ناجائز پودا تھا کیونکہ اس سے نشہ کیا جاتا تھا مگر جب اس کی سکون آور خصوصیات کا علم ہوا تو اس کو جائز قرار دے دیا گیا اور اس سے دوا بنائی جانے لگیں ۔ جیسے کہ ہیروئن سے مارفین ، اوکسی ٹاسن وغیرہ یہ ایک ایسی دوا ہے جو انسان کو دماغی طور پر ایسی جگہ پہنچا دیتی ہے جہاں اسے ہر طرف جنت جیسا ماحول اور خوشی دکھائی دیتی ہے ۔اس صورتحال کو یو فوریا(Euphoria) کہتے ہیں ۔اگر ایسی حالت میں آپ کسی نشئی کو پاگل کہہ دیں تو وہ آپ کو کہنے میں حق بجانب ہو گا کیونکہ آپ جانتے ہی عنہیں کہ نشے میں کیا لذت اور خوشی ہے ۔ اور بعد کے نقصانات تو بعدمیں پتہ چلنے ہیں ۔
انسان کو جب اوپیم کی نشہ آور خصوصیات کا علم ہوا تو اس کو ہر طرح سے استعمال میں لایا گیا ۔ اس کی چائے بنائی گئی ۔ انجکشن بنے ، لوگ اس کو ناک کے ذریعے لینے لگے ، مورفین بنی ، سگریٹ بننے لی ۔ پھر بیسویں صدی کے درمیان ایک ایسا دور آیا جب سائنس دانوں نے لیبارٹری میں ہیروئن بنا ڈالی ۔اب اس کو اُگانے کے لیے خشخاش کے بیج کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی ۔ اس کی فروخت اور استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ حالانکہ سائنسدانوں کا مقصد اس دوا کو اس لیے استعمال میں لانا تھا کہ جن بیماریوں میں شدید تکلیف ہوتی ہے اور انسان کی برداشت سے باہر ہوتی ہیں اس میں دی جائیں مگر ایسا نہ ہو سکا ۔ ہیروئن غیر قانونی سے قانونی طور پربننے لگی ۔ اس سے دوسری نش آور ادویہ وجود میں آئیں اور پھر آئی فین ٹالین ، یہ ساری نشہ آور ادویہ اوپیائوڈ(Opiod)کلاس سے تعلق رکھتی ہیں ۔
امریکا میں پچھلی دو صدیوں میں تین خطرناک نشے کی وبا پھیلیں ہیں ۔ ایک وبا وہ تھی جب ڈاکٹرز نے اوکسی ٹاسن(Oxytoin) نامی دوا درد کی دوا کے طور پر زیادہ دینی شروع کر دی تھیں حالانکہ یہ ایک نشہ آور دوا تھی ، دوسری وبا جب چھوٹے موٹے نشے کے عادی افراد ہیروئن کی عام دستیاب کے باعث ہیروئن لینے لگے اور اب تیسری وبا اس دوا فین ٹالین نے پھیلائی ہے ۔
فین ٹالین ہیروئن کے مقابلے میں پچاس دفعہ زیادہ زہریلی ہے ۔ یہ کسی کو نہیں بخشتی چاہے بچہ ہو ، بوڑھا ہو یا جوان اس کی ذرا سی زیادہ مقدار موت کے منہ میں ڈال دیتی ہے ۔ ایک چھوٹے سکے کے برابر فین ٹالین ایک ہاتھی کو مارنے کے لیے کافی ہے ۔ یہ اب تک کی تمام اوپیائوڈز میں سب سے زیادہ خطرناک دوا ہے ۔
فین ٹالین امریکا میں عام بکتی ہے ۔ یہ قانونی طور پر بھی آسانی سے مل جاتی ہے اور غیر قانونی طور پر بھی باآسانی دستیاب ہے ۔ سڑکوں پر ہےTNT ، چائنا گرل کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ زیادہ تر ہیروئن میں مکس کر کے بیچی جاتی ہے کیونکہ اس کی تھوڑی سی مقدار بھی خطرناک ہوتی ہے ۔ اس لیے اس کو ہیروئن کے ساتھ مکس کر کے زیادہ مقدار میں بنایا جاتا ہے اور پھر یہ سڑکوں پر بکتی ہے مگر چونکہ اس کاروبار میں ہیروئن اور فین ٹالن کی مقدار کا تناسب صحیح طور پر نہیں کیا جاتا جس کے باعث اموات واقع ہوتی ہیں ۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے ۔ یہ چائنا سے میکسیکو برآمد کی جاتی ہے اور پھر میکسیکو سے امریکا کے مختلف شہروں میں پھیلائی جاتی ہے ۔ چائنا میں اس کوبیچنا غیر قانونی ہے مگر ان قوانین پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا ہے ۔ یہ اتنا اسان ہے یہ کچھ لوگ میل کے ذریعے بھی ہیروئن منگوا لیتے ہیں ۔
قانونی طورپر فین ٹالین دو طرح کے لوگوں کے لیے بنائی گئی تھی ۔ ایک تو وہ لوگ جو آپریشن کی تکلیف میں ہوں ۔ آپریشن سے پہلے فین ٹالین کے ذریعے انسان کوبے ہوش کیا جاتا ہے اور دوسرے آخری اسٹیج کے کینسر کے مریض جن کی تکلیف اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی اور دوا کام نہیں آتی ۔ مگر ہوا کچھ اس سے الٹا ، یہ دوا قانونی ہونے کے بعد ان لوگوں کو بھی دی گئی جن کو اس کی قطعاً ضرورت نہ تھی ۔ ایک ریسرچ کے مطابق پچپن فیصد لوگوں کو غلط فین ٹالین دی گئی اور ان کو اس دوا کا عادی بنایا گیا ۔ یہ تقریباً آدھی سے زیادہ تعداد میں لوگ ہیں ۔ امریکن میڈیکل ایسو سی ایشن کے جنرل میں ایک تحقیق شائع ہوئی جس کے مطابق ہزاروںلوگوں کو فین ٹالین ایسے امراض میں دی گئی جن میں اس دوا کی کوئی ضرورت نہ تھی جیسے کہ دانت کا درد ، کان کا درد ، اور اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ جو کمپنیز یہ دوا بنا رہی تھیں وہ منافع چاہتی تھیں۔
فین ٹالین1960ء میں ایک سائنسدان پال چیسن نے بنائی1981ء میں20 سال بعد جیسن کا حق(Patent) اس دوا سے ختم ہو گا ۔ پیٹینٹ کے مطابق ایک وقت مقررہ تک دوا کو ایجادکرنے والی کمپنی یا آدمی ہی اس دوا کو بنانے کا حق رکھتا ہے اور فروخت کر سکتا ہے ۔ یہ اس کا حکومت کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے ۔ اب اس دوا کا پیٹینٹ جیس ہی جیسن پال کے پاس ختم ہوا دوسری تمام بڑی دوا ساز کمپنیاں اس کوبنانے لگں ۔ کچھ نے فین ٹالین کے انجکشنز بنائے ، کچھ نے اسپرے بنائے ، کچھ کمپنیاں تو میڈیکیٹڈ لولی پالیسی بنا کر بیچنے لگیں ۔ پیٹینٹ ختم ہونے کے بعد(FDA) ایف ڈے اے ، فیڈرل ڈرگ اتھارٹی کو چاہیے تھا کہ اس دوا کی فروخت کو کنٹرول کرے مگر انہوں نے اس کام کے لے میکنسن(Mackenson) نامی ایک کمپنی کو مختص کر لیا جو کہ دنیا کی سب سے بڑی دوا بیچنے والی کمپنی ہے ۔ اس طرح انہوں نے خزانے کی رکھوالی چوروں کے ہاتھوں میں دے دی بھلا کوئی دوا ساز کمپنی چاہے گی کہ ایک دوا جو کہ نشہ آور خصوصیات کی بناء پرلوگوں کو اپنا عادی بنا لیتی ہے کم بیچی جائے۔ ایسا ممکن نہ تھا ان کا موٹو تھا کہ لوگ مانگ رہے ہیں تو ان کو مہیا کی جائے ۔ امریکا میں اگر نشہ آور ادویات سے اموات کی وبا پھیلی ہے تو اس کی مکمل ذمہ داریFDA اور دوا ساز کمپنیوں کو جاتی ہے ۔ جو کہ بغیر سوچے سمجھے اتنے سالوںسے یہ دوا بنا رہی ہیں ۔
اس دوا کو بیچنے میں جو خاص حربہ استعمال کیا گیا وہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا تھا کہ یہ دوا نشہ آور نہیں ہے بلکہ درد کی ایک معمولی دوا ہے یہ خاص حربہ اس وقت بھی استعمال ہوا جب دوا آکسی ٹاسن بنائی گئی ۔ آج کل امریکا میں جب ہر دوسرا نو عمر بچہ نیکوٹین شیکس(Nicotene Shakes) یہ کہہ کرپی رہا ہے کہ2020 کادور ہے دقیانوسی باتیں مت کرو تو پھر سوچیں کہ یہ دوا کتنی لی جاتی ہو گی ۔
اس کی فروخت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بچوں کی کمپنی جانسن اینڈ جانسن (Johnson & johnson) نے بچوں کے لیے اسپنج باب(Spongebob) نامی کارٹون کے سنی پلاسٹ(Band aids) نکالے کہ جن کے اندر یہ دوائی فین ٹالین ڈالی گئی ۔ چوٹ لگنے پر بچے کیا نشہ آور درد کی دوا لگائیں ۔
اس کام پر امریکا کی حکومت اور ایف ڈی اے آخر ہوش میں آئیں اور جانسن اینڈ جانسن پر کیس دائر کیا گیا کہ انہوں نے نشہ آور دوا کے فوائد تو بتائے مگر نقصانات کی طرف توجہ نہیں دلائی ۔ اسی طرح جانسن اینڈ جانسن ایک اور دوا ڈیورا جیسک(Duragesie) نامی میڈیکیڈ پٹیاں (Patches) بنائیں جن میں فین ٹالین ڈالی گئی اس دوا سے رپورٹ کے مطابق ایک اسٹیٹ میں تقریباً ساٹھ ہزار اموات ہوئیں ۔ اسی طرح ایک اور کمپنی سیفا لون(Cephalon) نے فین ٹالین کو بہت طرح طرح کے انداز میںبیچا اسی کے اسپرے بنائے ، لالی پاپس بنائیں ، پانی میں گھول کر پینے والی دوا فین ٹورا کے نام سے بنائی ، درد کی دوا پانی میں گھولیں اور پئیں ، یہ نہیں بتایا کہ یہی دوا نشہ آور بھی ہے ۔ جو دوا کینسر کے مریضوں کے لیے بنائی گئی تھی وہ2001ء کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک فیصد کینسر کے مریضوں کو دی گئی باقی نناوے فیصد کہاں بیچی گئی؟ یہ امریکی حکومت کے لیے چبھتا ہوا سوال تھا ۔
امریکی حکومت اور ایف تی اے کے ہوش میں آنے کے بعد مختلف کمپنیز پر کیس دائر کیے گئے اور سیفا لون کمپنی نے450 ملین ڈالر کا جرمانہ بھرا اور فین ٹالین کی فروخت روک دی ان کا لائسنس ضبط کر لیا گیا ۔ مگر بہت سی ایسی دوا ساز کمپنیاں تھیں جنہوں نے جرمانے سے بچنے کے لیے بہت سے حربے استعمال کیے ۔جیسے کہ رشوت اور بلیک میلنگ سے وکلاء اور گواہان کو خریدنا اسی ایک کمپنی کا نام انیسس(Insys) تھا جس پر سارہ فلر کی موت کا الزام لگایا گیا ۔ انیسس کمپنی کے فروخت کنندہ کا کہنا ہے کہ وہ ڈاکٹرز کو فین ٹالین مریضوں کو زیادہ سے زیادہ دینے کی ہدایات کرتے جس پر ڈاکٹرز ایسے لوگوں کوبھی فین ٹالین دیتی ن کو اس کی قطعاً ضرورت نہ ہوتی تھی ، ڈاکٹرز اس کے بدلے میں مراعات حاصل کرتے اور اگر اتفاقاً کوئی کینسر کا مریض ان کے کلینک پر آ جاتا تو ڈاکٹرز کی عید ہو جاتی وہ اس مریض کے نام پر لاکھوں کی تعداد میں فین ٹالین منگوا لتے اور عام مریضوں میں تقسیم کر دیتے ، انہی لوگوں میں ایک سارہ فلر بھی تھی جس کو گردن کے درد کی شکایات رہتی تھی ، ڈاکٹر نے اس کو فین ٹالین مسلسل لینے کا کہا جس سے وہ اس کی عادی ہو گئی اور گیارہ مہینے بعد فین ٹالین کے مسلسل استعمال سے اس کے جسم میں اس کی مقدار اتنی زیادہ ہو گئی کہ وہ موت کا شکار ہوگئی ۔
یہ ایک کہانی نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ امریکا میں اس دوا کی وجہ سے موت کے منہ میں جاتے ہیں ۔ جان کیور جو کہ انیسس کمپنی کا ڈائریکٹر تھا اور فوربز میگزین کے مطابق دنیا کا امیر ترین آدمی قرار پایا تھا آج کل جیل کی ہوا کھا رہا ہے ۔ اور انیسس کمپنی کو بائیس ملین ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بینک کرپٹ ہو چکی ہے ۔
جانسن اینڈ جانسن ، سیفا لون اور انیسیس جیسی بڑی بڑی دوا ساز کمپنیوں کا لائسنس اس دوا بنانے کے لیے ختم کر دیا گیا ہے مگر اب یہی کمپنیاں فین ٹالین کا توڑ بنا رہی ہیں جس کا نام نالو کزون(Naloxone)ہے اس کو نار کان بھی کہا جاتا ہے ۔
یہ ایک زندگی بچانے والی دوا قرار پائی ہے اور یہی امریکا کی واحد امید ہے ۔ یہ ایک اوپیائوڈ بلاکر(Opoid blocker) ہے اور یہ ایک نشے میں دھت انسان کو ہوش میں لا سکتی ہے ۔ یہ نشے کا توڑ ہے ۔کچھ ڈاکٹر اس کومعجزاتی دوا بھی کہتے ہیں کیونکہ اپنا کام کرنے میں اس دوا کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ مگر ہر دوا کی طرح اس کا بزنس بھی شروع ہو گیا ہے ۔انیسیس جیسی کمپنیاں اب یہ دوا بنا کر منافع کما رہی ہیں ۔ ان کمپنیز نے پہلے ایک وبا پھیلائی اب اس کا علاج بہم پہنچا رہی ہیں ۔ ان کا مقصد صرف منافع کمانا ہے ۔2018ء کے سال اس دوا کی مارکیٹ178 بلین ڈالر رہی ہے اور محقق کے مطابق2020ء تک بلین تک پہنچ جائے گی ۔ کوئی بھی مارکیٹ اتنی تیزی سے اوپر نہیں جاتی ۔ اس سے ثابت ہے کہ امریکا میں نشے کے عادی تو جوں کے توںموجود ہیں ہاں ان کے لیے ایک توڑ آ گیا ہے جس کی فروخت سے ان کی سالانہ اموات میں کمی آئی ہے ۔
خبر کے مطابق اب ایک نئی دوا ڈیسوا(Desuva) کے نام سے ایجاد کی گئی ہے جو فین ٹالین سے بھی زیادہ طاقت ور نشہ آور ہے ۔ اب مارکیٹ میں حکومت اور دوا ساز کمپنیاں اس کو جائز ناجائز طریقوں سے عام کریں گی اور اس سے پیسہ کمائیں گی ۔ جب اس سے اموات کا گراف اونچا ہو جائے گا تو اس کا توڑ نکال کر پھر پیسہ کمائیں گی اوریوں یہ سائیکل چلتی جائے گی ۔