وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنی جانب توجہ مبذول کروالی ہے، روزانہ جس قسم کی گفتگو کررہے ہیں اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ اب ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ خود سوچو خود بولو… اور وہ اس سے زیادہ سوچ نہیں سکتے۔ ابھی ہم ان کے بیانات پر یہ تبصرہ کررہے تھے کہ یہ انداز گفتگو وزیراعظم کے منصب کو غیر معتبر بنارہا ہے لیکن اب تو ان کی گفتگو اور انداز اپنے وزیر بے تدبیر سائنس و ٹیکنالوجی المعروف چاند نکالنے والے سے بھی گیا گزرا ہوگیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ جب نواز شریف کو لندن روانگی کے وقت جہاز پر چڑھتے دیکھا تو حیران رہ گیا، پھر ڈاکٹرز کی رپورٹ یاد آگئی کہ نواز شریف کا علاج یہاں ہو ہی نہیں سکتا۔ رپورٹ میں 15 بیماریاں بتائی گئیں، نواز شریف جس جہاز میں گئے اس میں کوئی عام آدمی نہیں جاسکتا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں یا ان سے کسی نے جو فیصلہ کروالیا ہے اس پر اپنی خفت مٹا رہے ہیں، بلکہ اگر ان کے بیان اور تقریر پر توجہ دیں تو رکشوں کے پیچھے لکھا ہوا جملہ زیادہ بہتر انداز میں چسپاں ہوتا نظر آرہا ہے کہ ’’محنت کر حسد نہ کر‘‘ یا ’’جلومت کالے ہوجائو گے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ اسحق ڈار کے والد کی سائیکلوں کی دکان تھی۔ آج اس کے بیٹے ارب پتی ہیں۔ حسن نواز 8 ارب کے گھر میں رہتا ہے۔ ان کے پاس اتنا پیسا کہاں سے آیا۔ مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔ ارے یہ کیا کہہ دیا۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے پھر عدلیہ پر برسنے لگے۔ چیف جسٹس نے دماغ درست کیا تو پھر نواز شریف پر برس رہے ہیں۔ مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن کیسے، وہ تو چلے گئے۔
عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف کو جب جہاز پر چڑھتے دیکھا… تو کیا خان صاحب ٹھیک طرح سے دیکھ بھی نہیں سکتے۔ ارے وہ جہاز پر چڑھ نہیں رہا تھا بلکہ اس چیز پر کھڑا تھا جس پر وہیل چیئر رکھ کر طیارے کے کیبن کے دروازے تک پہنچائی جاتی ہے۔ اور خان صاحب کو کیوں یاد نہیں ایسی ہی چیز سے تو وہ الیکشن سے چند روز قبل گرے تھے پھر قوم کے نام پیغامات کی ویڈیوز چلائی گئی تھیں۔ انہوں نے ایسی چیز پہلی دفعہ تو نہیں دیکھی، ہاں نواز شریف کھڑے ہو کر گئے تھے۔ ان کے لیے حیرت کا باعث ضرور ہوگا۔ اب عمران خان صاحب رپورٹوں کا ذکر کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جہاز دیکھ کر نواز شریف ٹھیک ہوگیا۔ مجھے تو رپورٹ دی گئی تھی کہ 15 بیماریاں ہیں، ان کا علاج یہاں ہو ہی نہیں سکتا، اب وزیراعظم یہ رپورٹ دینے والوں کو طلب کریں، ان سے پوچھیں کہ ایسی رپورٹیں کیوں دیں۔ ان سے بازپرس کرنے کے بجائے میڈیا کے ذریعے شور شرابا کرنے میں کیوں مصروف ہیں۔ جناب آپ وزیراعظم ہیں اتنی آسانی سے (بقول آپ کے) جعلی رپورٹ دکھا کر آپ کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ کل تک آپ عدلیہ کو الزام دے رہے تھے کہ اس کی وجہ سے نواز شریف نکل گئے اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ علاج نہ کرایا تو یہ کسی بھی دن چلا جائے گا۔ آپ کی پہلی ذمے داری ہے کہ اگر آپ رپورٹ کو غلط سمجھتے ہیں تو رپورٹ دینے والوں کو پکڑیں۔ لیکن ذرا خود بھی غور کریں اسحق ڈار اور ان کے بیٹوں نے دولت کیسے کمائی اس کے بارے میں تبصرہ کرتے وقت وہ جادوئی سلائی مشین سامنے رکھیں جس سے اربوں روپے کمائے جاسکتے ہیں۔ اگر ایک سلائی مشین سے ایسا ہوسکتا ہے تو اسحق ڈار تو بیٹھے ہی نوٹ بنانے کی مشینوں کے درمیان تھے، انہوں نے بھی بنائے ہوں گے۔ وزیراعظم کو قلق ہے کہ نواز شریف جس جہاز میں گیا ہے اس میں کوئی عام آدمی نہیں جاسکتا۔ ان کی بات بالکل ٹھیک ہے لیکن وہ نواز شریف کو عام آدمی سمجھنے پر کیوں مصر ہیں، ویسے کوئی عام آدمی ہیلی کاپٹر میں اپنے دفتر نہیں جاتا، بنی گالا میں نہیں رہتا، کتے پر لاکھوں روپے ماہانہ خرچ نہیں کرتا اور صرف ایک لاکھ ٹیکس نہیں دیتا، نواز شریف بھی کبھی عام آدمی تھے نہ ہیں، بیماریوں کی فہرست پر نظر ڈالنے سے قبل اپنی کابینہ پر بھی نظر ڈالیں۔ نعیم الحق، مراد سعید، شیخ رشید سب کی تصویریں اسپتالوں میں بستر پر پڑے ہوئے نظر آرہی ہیں، ایک ایک آدمی کو پانچ پانچ بیماریاں تو لگ گئی ہیں۔ حکومت کی ترجمان جو درحقیقت وزیراعظم کی ترجمان ہیں وہ تو دور کی کوڑی لائیں کہ نواز شریف ائر ایمبولینس میں نہیں گئے چارٹرڈ طیارے میں گئے ہیں۔ اچھا مان لیتے ہیں کہ وہ چارٹرڈ طیارے میں گئے ہیں تو پھر کیا ہوا۔ نواز شریف تو وہ بے تحاشا دولت استعمال کررہے ہیں جو ان کے پاس ہے جس کو عمران خان لوٹ کا مال کہہ رہے ہیں۔ نہ عدالت ثابت کر پارہی ہے اور نہ وزیراعظم عمران خان نے پلیٹ لیٹس کے بارے میں جو بات کی ہے کہ یہ تو میں نے پہلی مرتبہ سنا ہے۔ یہ تو کمال ہی کردیا۔ آکسفورڈ میں بھی شاید کنٹینر پر ہی کھڑے تھے۔ اگر پلیٹ لیٹس کا نہیں معلوم یہ پہلی دفعہ سنا ہے تو ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ عمران خان کے سر سے نواز شریف کا بھوت اُتر ہی نہیں رہا ان کا غصہ بڑھتا جارہا ہے اور مولانا فضل الرحمن اپنی بات کررہے ہیں کہ حکومت جارہی ہے۔ گھبراہٹ بہرحال حکومتی صفوں میں ہے وہ عیاں ہے۔ چودہ پندرہ ماہ صرف چور چور کی رٹ میں گزار دیے۔ قرضوں کا بوجھ کئی گنا ہوگیا، پٹرول، گیس، بجلی، اشیا نے خوردنوش، دوائیں ہر چیز مہنگی ہوئی، ڈالر کو راکٹ لگ گئے اور حکومت ایک چور کو نہیں پکڑ سکی۔ اس میں سوا سال ضائع کرچکے۔ ملک اپنی جگہ کھڑا ہوا ہے۔ روز ترقی کی خوش خبریاں سنائی جاتی ہیں جو نواز شریف، زرداری، مشرف، بے نظیر، ضیا الحق، بھٹو… سب ہی سناتے رہے۔ ملک اسی طرح الٹا چل رہا ہے۔ عمرآن خان کہتے ہیں اسٹیٹ بینک کی رپورٹ پڑھ لو۔ اب وہ بھی پڑھ لیں اسٹیٹ بینک کیا کہتا ہے۔