اس مرتبہ اقتدار کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھ لگا ہے جن کا پیٹ بھر کر ہی نہیں دے رہا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے ان کو اْس زمانے میں لگایا گیا ٹیکس ظالمانہ لگ رہا تھا۔ گیس، بجلی پانی کے بل اس لیے جلائے جارہے تھے کہ ان کے فی یونٹ نرخ عوام کی قوت ادائیگی سے باہر تھے۔ پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ ادھار لینا غیرت مند کے لیے اپنے آپ کو جان سے ماردینے کے برابر تھا۔ ٹیکس دینے والے بہت بڑی تعداد میں نظر آتے تھے اور ٹیکس کی مد میں ایک روپیہ بھی بڑھ جانے کا مطلب حکمران کے چور ہونے کا ثبوت تھا۔ بات غلط بھی نہیں تھی اس لیے کہ کسی بچے کی پیدائش سے کہیں پہلے اس پر لاکھوں روپے کا ادھار سوار ہوجایا کرتا تھا۔ اْس وقت کے حکمران دنیا گھوم کر قرض پر قرض مانگ رہے تھے۔ ہر سال ٹیکسوں میں اضافہ ہوجایا کرتا تھا، مہنگائی کا گراف محو پرواز رہتا تھا، ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافے کے لیے بڑی بڑی منصوبہ سازیاں ہوا کرتی تھیں، بجلی اور گیس میں ہر مہینے دو مہینے بعد اضافہ ہو جایا کرتا تھا اور سچ تو یہ تھا کہ اس وقت کے عوام اس صورت حال سے بہت پریشان تھے اسی لیے جب ان کے کانوں میں یہ صدا گونجی کہ پٹرول 70 روپے سے کم ہوکر 46 روپے ہوجائے گا، عوام پر لگائے گئے جتنے بھی ٹیکس ہیں ان میں کٹوتی کی جائے گی، مہنگائی کا تیر جو آسمان کی جانب محو پرواز ہے وہ زمین کی جانب مڑنا شروع ہو جائے گا، قرض کے سارے دروازے بند کر دیے جائیں گے بلکہ پاکستان کو اتنا خوشحال بنادیا جائے گا کہ پاکستان دوسرے ممالک کو قرض دیا کرے گا، بے روزگاری کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا، ایک کروڑ سے بھی زیادہ افراد کو روزگار فراہم کیا جائے گا، کوئی فٹ پاتھ پر سوتا ہوا نہیں ملے گا کیونکہ بے گھروں کے لیے پچاس لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے، صحت کا معیار اتنا زبر دست بنایا جائے گا کہ ہر فرد ہرکولیس بن جائے گا اور تعلیم نہ صرف عام کی جائے گی بلکہ اتنی معیاری ہوگی کہ لوگ امریکا و یورپ کو بھول جائیں گے۔ یہ وہ پر کشش نعرے اور دعوے تھے جس کے دامِ مکر و فریب میں ملک کے معصوم اور بھولے بھالے عوام آ گئے اور حسب سابق اپنے بھول پن کی سزائیں کاٹنے کے لیے تیار و آمادہ بیٹھے ہیں۔
خبر ہے کہ وزیر اعظم کی زیرصدارت پارٹی اور حکومتی ترجمانوں کا اجلاس ہوا، جس میں ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی معاشی ٹیم کا بھی اجلاس ہوا، جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں اضافے اور ان کو مراعات دینے سے متعلق امور پرغور کیا گیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ سب ٹیکس دیں، ملک ایسے نہیں چل سکتا جب کہ ترقیاتی منصوبوں پر بروقت عمل درآمد سے جہاں معاشی عمل تیز ہوگا وہاں نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ وزیر اعظم کا یہ فرمانا کہ پورے ملک کو ٹیکس دینا چاہیے اور ملک بنا ٹیکس کسی صورت نہیں چلا کرتا، بالکل درست ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کا ایک ایسا غریب جو بصد مشکل ایک وقت کی روٹی کھاتا ہو کیا وہ حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کررہا ہوتا؟۔ پاکستان میں ایک ماچس کی ڈبیہ بھی ایسی نہیں جس کی ایک ایک تیلی ٹیکس کے شکنجے میں کسی ہوئی نہیں ہو اور شاید پاکستان میں اب تک فروخت ہونے والی سب سے سستی اگر کوئی شے ہو سکتی ہے تو وہ ماچس ہی ہے۔ جب ایک ماچس کی تیلی تک پر لگا ٹیکس ماچس خریدنے والے کی جیب سے ادا ہوتا ہو تو یہ کہنا کہ عوام ٹیکس نہیں دیں گے تو ملک کیسے چلے گا، سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس وقت کے ٹیکس دہندگان کی تعداد، لگائے گئے ٹیکس کی نسبت کم ہے، اشیائے ضروریہ اب بھی سستی ہیں، پٹرول، بجلی، گیس اور پانی اب بھی سستا ہے، وصول ہونے والے ٹیکس اب بھی کم ہیں اور قرض لینے کی اب بھی بے حد ضرورت ہے تو پھر ماضی قریب کی وہ حکومت جس کے ٹیکس دہندگان آپ کی حکومت سے بھی کم تھے، ٹیکس کی مد میں وصول ہونے والی رقم آپ کے دور سے کم تھی، بجلی، پانی اور گیس سستی تھی، پٹرول کی قیمت آدھی تھی اور قرض بھی آپ کی حکومت سے بہت کم لیے گئے تھے تو پھر وہ برے کیوں اور آپ اچھے کیسے شمار کیے جاسکتے ہیں۔
آپ کی ہر تقریر میں سارا رونا پچھلوں ہی کا ہوتا ہے لیکن آپ کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اس بات کا جائزہ لیں کہ آپ پاکستان کو کس عذاب میں دھکیل رہے ہیں، پٹرول کہاں تھا اورآپ کہاں لے گئے ہیں، سبزیوں اور پھلوں کی قیمت کو کس بلندی پر پہنچا گئے ہیں، دودھ دہی اور گوشت آج کس نرخ پر دستیاب ہے۔ حج کی مد میں کتنے لاکھ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ٹماٹر، پیاز، آلو، ہری مرچیں اور ادرک غریبوں کی پہنچ سے کتنی دور ہو چکی ہے، گھی، چائے، دالیں اور چینی کو کتنی آگ لگی ہوئی ہے اور ڈالر کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔ قرض کے انبار آپ لگا چکے ہیں، ٹیکسوں کا سارا حساب کتاب بگڑا ہوا ہے، ٹیکس دہندگان میں لاکھوں کا اضافہ ہو چکا ہے، لوگ لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار ہوچکے ہیں، بنے بنائے گھروں کو مسمار کرکے آپ لاکھوں افراد کو بے چھت کر چکے ہیں، کاروبار بند ہوتے چلے جارہیں اور لوگوں کو گھر کا چولہا جلانا ناممکن نظر آنے لگا ہے لیکن آپ کی زبان پر ایک ہی رٹ ہے کہ عوام ٹیکس دیں گے تو ملک چلے گا۔ جس حکومت پر تنقید کرتے آج بھی آپ کی طبیعت نہیں بھرتی کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس حکومت میں پیاز 100 روپے میں 5 کلو مل جایا کرتی تھی۔ ٹماٹر 100 روپے میں 6 کلو بھی مل جایا کرتے تھے، چینی زیادہ سے زیادہ 50 روپے فی کلو تھی، پٹرول 80 سے کم تھا اور بجلی، پانی گیس کی فی یونٹ نرخ آج سے کہیں کم تھے۔ ڈالر 94 روپے کا تھا اور دودھ دہی انڈے ارزاں تھے۔ جس حکومت پر آپ نے کرپشن کے الزامات کی بارش کی ہوئی تھی وہ سڑکیں بنا رہی تھی، پچھلوں کے قرضے بھی ادا کر رہی تھی، مہنگائی کے آگے بند بھی باندھے ہوئے تھی، ٹرینیں بھی چلا رہی تھی اور موٹرویز بھی تعمیر کر رہی تھی۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھنے کے بعد آپ اپنی قوم کو اس بات پر کیسے مطمئن کر سکیں گے کہ آپ کا دور حکومت اچھا ہے یا ان کا اچھا تھا جن کو آپ چور اور ڈاکو قرار دیتے رہے؟۔ یہ بات آپ کے لیے ایک بہت بڑا چلینج ہے اور اس چیلنج پر آپ کو پورا اترنا بہت ضروری ہے۔
ترقیاتی کام رکے ہونے کے باوجود، وعدوں اور دعوؤں کے مطابق کروڑوں نوکریاں فراہم نہ کرنے کے باوجود، بے گھروں کو گھر فراہم نہ کرنے کے باوجود، مہنگائی کو آسمان تک پہنچانے کے باوجود، لوگوں سے روزگار چھین لینے کے باوجود اور عوام کو ایک عذاب میں دھکیل دینے کے باوجود بھی آپ جب بھی کوئی حرف شکایت اپنے لبوں پر سجاتے ہیں تو وہ یہی شکایت ہوتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے اور جب تک عوام ٹیکس نہیں دیں گے ملک کا کاروبار نہیں چلایا جاسکے گا تو آپ ایک مرتبہ صاف صاف بتادیں کہ آخر عوام سے آپ کتنا ٹیکس لینا چاہتے ہیں۔ یقین مانیں، عوام تو آپ پر اپنے لہو کا آخری قطرہ تک نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن آپ کا کوئی ایک قدم تو ایسا ہو جس سے عوام کو یہ ڈھارس بندھے کہ ان کا مستقبل روشن ہے اور ان کی دی ہوئی قربانیاں آنے والے مستقبل کو تابناک بنادیں گی۔ یاد رکھیں، اگر کھربوں کا قرض لینے، ٹیکس وصول کرنے اور مہنگائی کو آسمان تک پہنچانے کے باوجود بھی اگر آپ عوام کے لیے سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہوئے تو پھر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آنگن بالکل ٹیڑھا نہیں ہے سارا مسئلہ ناچنے والے کے ٹیڑھ پن کا ہے لہٰذا خرابیاں اپنے اندر تلاش کریں تو ممکن ہے کہ حکومتی کارکردگی بہتر ہوجائے۔