عمران خان اور نواز شریف !

221

تبدیلی کے خواہش مند وزیراعظم عمران خان فکر مند ہیں کہ نواز شریف ملک سے روانہ ہوتے ہوئے ہی ٹھیک کیسے ہوگئے، ان کی طبی رپورٹوں میں تو واضح لکھا تھا کہ انہیں 15 بیماریاں ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ تحقیقات کی ضرورت ہے کہ جہاز دیکھ کر حالت صحیح ہوئی یا لندن کی ہوا لگی؟ میاں والی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کپتان وزیراعظم نے کہا کہ میاں نواز شریف کو جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تو رپورٹ سامنے رکھی جس میں لکھا تھا کہ مریض کبھی بھی مر سکتا ہے۔ مرنا تو ہر ایک کو ہے ہر ایک کبھی بھی مرسکتا ہے، اس طرح رپورٹ میں درست ہی لکھا ہے۔ مگر وزیراعظم اس لیے بھی متفکر ہیں کہ مافیاز رہ گئے تو اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں، وہ تو کرسی بچانے کے لیے نہیں ’’تبدیلی‘‘ کے لیے اقتدار میں آئے ہیں۔ پوری قوم کو بھی یقین ہورہا ہے کہ عمران خان تبدیلی کے لیے آئے ہیں۔ یہ بھی تبدیلی ہے کہ مجرم کو علاج کی درخواست پر ملک سے باہر بھجوادیا گیا اور بقول چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ’’کسی کو باہر جانے کی اجازت عمران خان نے خود دی تھی، ہائی کورٹ نے تو صرف جزیات طے کی تھیں‘‘۔
وزیراعظم عمران کا مجرم نواز شریف کے ملک سے باہر چلے جانے کے بعد کمزور اور طاقتور کے لیے الگ الگ قانون کی بات کرنا بھی ایک ’’تبدیلی‘‘ ہی ہے۔ جبکہ نواز شریف کو ملک سے باہر جاتے ہوئے صحت مند نظر آنے کے بعد تحقیقات کا غیر واضح ذکر بھی خاصا معنی خیز ہے۔ سابق اور مجرم وزیراعظم میاں نواز شریف کے لندن پہنچنے کے بعد اپنی عالی شان رہائش گاہ ایون فیلڈ کے باہر سڑک کے کنارے کھڑی کار میں بیٹھ کر لندن میں گھومنا بھی ایک تبدیلی ہے۔ اس تبدیلی کے خالق پوری ایک ٹیم ہے جس میں اہم کردار خود مریض نواز شریف کا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کے مطابق نواز شریف جنہیں فوری اسپتال میں داخلے ہونا چاہیے تھا وہ کار میں ہشاش بشاش حالت میں گھوم رہے تھے۔ وہ کسی بھی طرح بیمار دکھائی نہیں دے رہے تھے، انہیں کسی نے سہارا بھی نہیں دیا ہوا تھا، وہ تو لندن میں مقیم پاکستانیوں کے نعروں کو بھی خاطر میں نہیں لارہے تھے جو نعرے لگا رہے تھے کہ ’’کون آیا کون آیا… چور آیا چور آیا‘‘۔ میاں صاحب ان نعروں کو سننے کے عادی ہیں یا پھر وہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ نعرے ان کے لیے نہیں لگ رہے بلکہ کسی چور کے خلاف لگ رہے ہیں۔ وہ تو منی لانڈرنگ کے مجرم ہیں چوری کے تھوڑی ہیں۔
بہرحال تبدیلی کا سفر پاکستان میں تیزی سے جاری ہے، یہ تیزی تحریک انصاف کے دورے حکومت میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یوٹرن کی بنیاد پر تبدیلوں کا ریکارڈ قائم ہورہا ہے۔ قاضی ٔ ملک نے اپنے اہم ترین ادارے کی کھل کر حمایت کی اور وزیراعظم عمران کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ کمزور کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ قانون کی بات غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا کام صرف انصاف نہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے‘‘۔ اب قانون کے برعکس انصاف کیسے کیا جاتا ہے یہ بات قوم خود ہی سوچتی رہے کیونکہ اس کے پاس ان چیزوں کے لیے بہت وقت ہے۔ پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے نیوزی لینڈ میں مقیم ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر، بیرسٹر اور سولسیٹر میر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان میں اداروں کے درمیان ہمیشہ کی طرح نورا کشتی ایک نئے انداز میں جاری ہے۔ اس کا مقصد عمران خان کو پی ٹی وی کیس سے باعزت بری کرنا یا کرانا مقصد ہوسکتا ہے اور یہ جتاکر کہ حکومت کی مخالفت کی باوجود ہم انصاف کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میرے خیال میں نواز کی ساتھ ڈیل کا یہ پہلا حصہ ہے کہ ’’تم بھی باہر ہم بھی بری‘‘۔ خیال رہے کہ عدالت نے پی ٹی وی، پارلیمنٹ حملہ کیس میں وزیراعظم عمران خان کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو 5 دسمبر کو سنایا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان کے حق میں آتا ہے یا نہیں؟ اس فیصلے کے آنے کے بعد ہی ملک کے آئندہ کے حالات کے رخ کا پتا چل سکے گا۔