جناب وزیر اعظم‘ ٹرمپ سے بچ کر رہیے

132

وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین ایک بار پھر ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے‘ ترجمان وزیراعظم آفس کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مغربی یرغمالیوں کی افغانستان میں رہائی مثبت پیش رفت ہے امریکی صدر نے اس مثبت نتیجے میں سہولت دینے کی پاکستان کی کوششوں پر شکریہ ادا کیا دونوں رہنمائوں نے افغان امن عمل کے لیے کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا‘ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ یہ ٹیلی فونک رابطہ عین اس وقت ہوا جب کشمیری عوام بدترین مسلسل کرفیو کا 116 واں دن دیکھ رہے ہیں‘ اور بھارت ہر ہر لمحے پیش قدمی کرتا چلا جارہا ہے‘ امریکی صدر کو افغانستان میں اپنے مفاد کے تحفظ کی فکر ہے اور ہم اس کے مفادات کے لیے سہولت کار بن رہے ہیں۔
دنیا اور اس خطہ میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کی کوشش قابل تحسین ہے لیکن کشمیر بھی اسی دنیا کا خطہ ہے جہاں بھارت امریکی سرپرستی میں ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے‘ وہاں امن قائم کرنا اور کشمیریوں کو اپنی مرضی منشاء کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی سہولت کاری دینا بھی اقوام عالم کی ذمے داری ہے اور پاکستان کا وزیر اعظم بطور وکیل کیوں خاموش ہے؟ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ پوری دنیا نے کر رکھا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیش کش‘ مودی کو سہولت کاری فراہم کر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کشمیری عوام کے لیے کتنی بار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل‘ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی سے سنجیدہ مطالبہ کیا ہے؟ مودی اور ٹرمپ کا مسخرہ پن مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی تمام شہری آزادیاں سلب کرنے کا باعث بنا ہوا ہے دنیا بھر میں کشمیریوں کے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں اور خود بھارت کے اندر سے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی مذمت کا سلسلہ شروع ہوا اس کے باوجود مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی ہٹ دھرمی ترک کی ہے نہ وہاں بھارتی فوجوں کے مظالم کا سلسلہ رکنے دیا ہے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا تسلسل بھی برقرار ہے اور کرفیو کے 116ویں روز بھی کشمیری عوام اپنے گھروں میں محصور ہو کر اپنے روزمرہ کے معاملات سے کٹے ہوئے ہیں جن کا بیرونی دنیا اور کشمیر کے باہر اپنے عزیزوں پیاروں سے بھی رابطہ منقطع ہے۔ جن کے لیے خوراک اور ادویات ناپید ہوچکی ہیں‘ کاروبار تباہ ہوگئے ہیں‘ مارکیٹیں اور تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں اور بھوک اور ادویات کی قلت کے باعث جو کشمیری اپنے گھروں میں ہی ایڑیاں رگڑتے اس جہان فانی سے گزر گئے ہیں ان کی تدفین کے لیے قبرستانوں میں لے جانے کی بھی اجازت نہیں مل سکی کشمیریوں کے گھروں کے صحن عملاً قبرستانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
بھارتی فوج کے ایک سابق جرنیل سنہا پوری ڈھٹائی کے ساتھ کشمیری خواتین سے زیادتی کرنے کی ترغیب دیتے نظر آئے جس پر دنیا بھر میں صدائے احتجاج بلند ہوئی مگر مودی سرکار کے کانوں پر وحشی پن کی اس انتہاء پر بھی جوں تک نہیں رینگی حد تو یہ ہے کہ اب بھارت دوبارہ سیاچن پر شب خون مارنے پر تلا بیٹھا نظر آرہا ہے جو اس کے جنگی جنون کا عکاس ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے اسی تناظر میں بھارت کو باور کرایا ہے کہ سیاچن متنازع علاقہ ہے‘ وہ اسے سیاحت کے لیے کیسے کھول سکتا ہے؟ بھارت سے یقینا کسی خیر کی توقع نہیں جس نے امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش کو بھی ٹھوکر مارتے اور سارے عالمی دبائو کی بھد اڑاتے ہوئے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ایک امریکی جریدے نے اپنی حالیہ اشاعت میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا کہ ان مظالم کے تحت کشمیریوں کی اب تک اتنی ہلاکتیں ہوچکی ہیں کہ انہیں دنیا سے چھپانے کے لیے بھارت سرکار نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے بند کر دیے ہیں۔ پانچ اگست سے اب تک مقبوضہ وادی میں پانچ ہزار 161 کشمیری گرفتار کیے گئے جبکہ پیلٹ گن کی فائرنگ سے اندھے اور اپاہج ہونے والے کشمیریوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اس کے باوجود بھارتی درندگی کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کر سکی اور وہ بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد بھارتی سنگینوں کے آگے سینہ تان کر جاری رکھے ہوئے ہیں اور کوئی بھی بھارتی حربہ ان کے پائے استقلال میں ہلکی سی لغزش بھی پیدا نہیںکرسکا۔ بھارت کشمیریوں پر مظالم کی جس انتہاء کو پہنچ چکا ہے‘ عالمی برادری کو ان کے حق خودارادیت کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا اور بھارتی جنونیت کا سدباب کرنا ہوگا۔