پاکستان کے صہیونی

418

تریسٹھ سال پہلے اکتوبر کی ۲۹ تاریخ کو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مل کر نہر سوئز پر حملہ کیا تھا۔ یہ حملہ نہر سوئز پر برطانیہ اور فرانس کے کنٹرول کے خاتمے اور نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے کے بارے میں صدر جمال ناصر کے جولائی ۱۹۵۶ کے اقدام کے خلاف تھا۔ اس حملہ سے پہلے ۱۹ ستمبر کو برطانیہ نے نہر سوئز استعمال کرنے والے ممالک کی لندن میں کانفرنس بلائی تھی۔ مقصد اس کا صدر ناصر کے اقدام کے خلاف نہر سوئز استعمال کرنے والے ممالک کی تنظیم قائم کرنا تھا اور برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے حملہ کا جواز وضع کرنا تھا۔ پچھلے دنوں میں برٹش لائبریری میں اس کانفرنس کا ریکارڈ دیکھ رہا تھا کہ یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے پاکستان کے وزیر خارجہ سر فیروز خان نون نے بڑے اعتماد اور وثوق سے اس کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ ’’اسرائیل قائم رہنے کے لیے معرض وجود میںآیا ہے‘‘۔ مجھے ایک تو حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس موقع پر سر فیروز خان نون کے اس بیان کی کیا تک تھی دوسرے اسرائیل کے قیام کے خلاف پاکستان کی پالیسی کے برعکس پاکستان کے وزیر خارجہ نے یہ بیان کیوں دیا؟ یہ بات کسی سے چھپی نہیں تھی کہ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن گوریاں نے ۱۹۴۸ میں قائد اعظم محمد علی جناح کو اسرائیل کی مملکت کو تسلیم کرنے کے لیے خط لکھا تھا لیکن قائد اعظم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ اس سے پہلے وہ واضح طور پر ارض فلسطین پر اسرائیل کی مملکت کے قیام کی مخالفت کر چکے تھے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے وزیر خارجہ سر فیروز خان نون کا اسرائیل کے بارے میں بیان حیرت انگریز ہے، لیکن ان لوگوں کو جو سر فیروز خان نون کے پس منظر سے بخوبی واقف ہیں انہیں نہر سوئز استعمال کرنے والے ممالک کی کانفرنس کے موقع پر ان کے اس بیان پر کوئی تعجب نہیں ہوا، سر فیروز خان نون کا تعلق پنجاب کے اس جاگیر دار خاندان سے تھا جو ہندوستان میں برطانوی راج کا اہم ستون مانا جاتا تھا اور برطانوی راج کی وفا داری کے عوض فیروز خان نوں کو سر کا خطاب دیا گیا تھا۔ ۱۹۳۶ سے ۱۹۴۱ تک وہ لندن میں برطانوی ہندوستان کے ہائی کمشنر کے عہدہ پر فائز رہے۔ پھر ۱۹۴۱ سے ۱۹۴۵ تک وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن رہے۔ نون کی اہلیہ آسٹرین یہودی تھیں اسی لیے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شادی کے ذریعے صہیونی بنے۔ شاید اسی رشتہ کے پیش نظر اُس زمانہ میں جب نون لندن میں ہائی کمشنر تھے، نوآبادیوں کے امور کے وزیر لارڈ موین نے ان سے کہا تھا کہ وہ فلسطن کی
سرزمین پر یہودی مملکت کے قیام کے بارے میں ایک ایسی اسکیم تیار کریں کہ اس مملکت کے قیام کا الزام برطانیہ پر عاید نہ ہو۔ اس کے بعد سر فیروز خان نون نے ہندوستان کے امور کے وزیر لیوپولڈ ایمرے کو جو خود یہودی تھے، عرب سرزمین پر اسرائیل کے قیام کے بارے میں ایک منصوبہ پیش کیا تھا۔
سر فیروز خان نون نے اپنے اس منصوبے میں تجویز پیش کی تھی کہ پہلے عرب ممالک کی فیڈریشن قائم کی جائے جس میں یہودی مملکت کو شامل کر لیا جائے یوں یہ یہودی مملکت عرب فیڈریشن میں شمولیت کی بنیاد پر ایک آزاد خود مختار مملکت کی حیثیت سے معرض وجود میں آجائے گی۔ اس مملکت کو عرب فیڈریشن کا کور حاصل ہوگا اور کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ یہ یہودی مملکت برطانیہ نے قائم کی ہے۔ سر فیروز خان نون کا یہ منصوبہ لیو پولڈ ایمرے نے ۱۰ ستمبر ۱۹۴۵کو برطانوی وزیر اعظم چرچل کو پیش کیا تھا جنہوں نے اس منصوبہ کو سراہا تھا۔ یہ منصوبہ پیش کرنے کے بعد سر فیروز خان نوں سر کا خطاب ترک کر کے پاکستان منتقل ہوگئے اور پاکستان کی سیاست میں اپنے قدم جمائے۔ ۱۹۵۰ میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے نون کو مشرقی بنگال کا گورنر مقرر کیا لیکن وہ عہدہ انہیں پسند نہ آیا اور اس سے سبکدوش ہو کر پنجاب آگئے جہاں ۱۹۵۳ میں انہوں نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا اور ۱۹۵۷میں وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن بہت قلیل مدت تک اس عہدے پر رہے کیونکہ ۱۹۵۸ میں صدر اسکندر مرزانے انہیں برطرف کردیا۔ اور اس کے فوراً بعد مارشل لا کے نفاذ کے بعد نون سیاست سے دست بردار ہوگئے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے جیفے سینٹر فار اسٹرٹیجک اسٹیڈیز کی ریسرچ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ سر فیروز خان نون پاکستان کے اسرائیلی نواز رہنمائوں میں نمایاں تھے۔
ان اسرائیل نواز رہنمائوں میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان بھی شامل تھے۔ سر ظفر اللہ خان کا بھی پس منظر سر فیروز خان نون سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ سر فیروز خان نون اپنے برطانوی وفا دار جاگیردار خاندان کے ناتے برطانوی راج کے بہت قریب اور وفادار تھے، سر ظفر اللہ خان احمدی ہونے کے ناتے برطانوی راج کے وفاداروں میں شمار ہوتے تھے۔ دوسری عالم گیر جنگ کے دوران برطانوی کابینہ نے انہیں برطانوی فوج میں مسلمانوں اور خاص طور پر پنجاب کے مسلمانوں کو بھرتی کی طرف راغب کرنے کے لیے برطانوی ہندوستان کا وزیر دفاع مقرر کرنے کی تجویز پر غور کیا تھا لیکن بعد میں انہیں چین میں برطانیہ کا ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ بلا شبہ سر ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ میں فلسطین اور عرب کاذ کی جس پر زور انداز سے وکالت کی تھی اس پر انہوں نے عرب ممالک میں مقبولیت حاصل کر لی تھی اور اسی بنیاد پر برطانوی راج نے انہیں ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کا جج مقرر کیا تھا۔ ۱۹۴۵ میں انہوں نے ہندوستان کی حکومت کی طرف سے لندن میں دولت مشترکہ کے امور کی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ لندن میں قیام کے دوران ان کی یہودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ شایم وائزمیں سے ملاقات ہوئی تھی۔ وائز میں نے سر ظفر اللہ کے فلسطین کے چھ روزہ دورے کا اہتمام کیا تھا۔ سر ظفر اللہ نے وائز مین کو لکھا تھا کہ اس دورے کے بعد فلسطین کے مسئلہ کے بارے میں ان کی رائے بدل گئی ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ پہلے وہ سمجھتے تھے کہ یہ مسئلہ بے حد پیچیدہ ہے لیکن اب ان کی رائے میں فلسطین کے مسئلہ کا حل بہت جلد تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو فلسطین کی تقسیم کے بارے میں اقوام متحدہ میں قرارداد کی منظوری کے بعد سر ظفر اللہ نے دمشق میں وائزمین سے ملاقات میں کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے فلسطین کی تقسیم کی شدید مخالفت کی تھی لیکن اب ان کی رائے بدل گئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطین کی تقسیم ہی فلسطین کے مسئلے کا مناسب حل ہے دوسرے لفظوں میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیل کے قیام کے حامی ہیں۔ وائزمین نے اپنی انٹیلی جنس رپورٹ میں لکھا تھا کہ سر ظفر اللہ کے نزدیک فلسطین کی تقسیم (اسرائیل کا قیام) ہندوستان کی تقسیم اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کے قیام کے مشابہ ہے۔
جنوری ۵۳ ۱۹ میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مندوب ابا ایبان سے سر ظفر اللہ کی نیویارک میں ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات کے بارے میں ابا ایبان نے اسرائیلی حکومت کو مطلع کیا تھا کہ سر ظفر اللہ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ لیاقت علی خان کی سابقہ حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت کی تھی لیکن بقول سر ظفر اللہ ان کے جانشین خواجہ ناظم الدین کی حکومت کمزور تھی اس لیے سیاسی دبائو کی وجہ سے وہ یہ فیصلہ نہ کر سکی۔ یہ بات بے حد اہم ہے کہ لیاقت علی خان کسی فوجی معاہدے میں شمولیت کے خلاف تھے جب کہ سر ظفر اللہ مغربی ممالک کے فوجی معاہدوں میں پاکستان کی شمولیت کے حامی تھے اور ان کی رائے تھی کہ اسرائیل بھی ان معاہدوں میں شامل ہو۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد فروری ۵۲ میں سر ظفراللہ خان نے قاہرہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کے جسم کا ایک عضو ہے۔ انہوں نے مصر پر زور دیا تھا کہ وہ ارض فلسطین سے اسرائیل کے وجود کے خاتمہ کا خیال ذہن سے نکال دے۔ دوسرے معنوں میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے۔ لیاقت علی خان کے بعد سر ظفر اللہ کی کوششوں سے پاکستان ۱۹۵۴ میں مغربی فوجی معاہدوں میں شامل ہوا تھا۔ اس زمانے میں اسرائیل نے فوجی معاہدوں میں پاکستان کی شمولیت کی بھرپور حمایت کی تھی۔ سر ظفر اللہ خان کی خواہش اور کوشش، پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کی تھی لیکن احمدیوں کے خلاف ایجی ٹیشن اور فسادات کے بعد سر ظفر اللہ خان نے کابینہ سے استعفا دے دیا لیکن برطانیہ اور اسرائیل کی کوششوں سے وہ بین الاقوامی عدالت کے سربراہ منتخب کر لیے گئے۔ وہ پہلے پاکستانی تھے جو بین الاقوامی عدالت کے سربراہ منتخب ہوئے۔ بین الاقوامی عدالت کے جج کی ایک معیاد کے بعد سر ظفر اللہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کے عہدے پر مقرر ہوئے۔ اس دوران کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب سے ان کے بڑے گہرے تعلقات تھے اور اسرائیل انہیں اپنا قریبی اور بھروسے والا حمایتی تصو ر کرتا تھا۔
پاکستان اور عالم اسلام کے بیش تر ممالک کی پالیسیوں کے بر خلاف، سر ظفرا للہ خان اور سر فیروز خان نون دونوں اسرائیل کے زبردست حامی قرار دیے جاتے تھے۔ ان دونوں رہنمائوں کے دور میں جب وہ وزیر خارجہ تھے، پاکستان کی وزارت خارجہ میں ان کے حامیوں اور ان کے دور میں بھرتی ہونے والے افسروں کی بڑی تعداد اسرائیل نواز رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاً اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں تجاویز پیش کی گئی ہیں اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور قریبی تعلقات کی بدولت امریکا اور مغربی ممالک سے قریبی تعلقات استوار کرنے میں مدد ملے گی اور بڑی حد تک ہندوستان کی پاکستان کے خلاف پالیسیوں کا توڑ کیا جا سکے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سر فیروز خان نون اور سر ظفر اللہ خان دونوں رہنما پاکستان میں اسرائیل نوازوں کی صف میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں اور اسی مناسبت سے انہیں پاکستان کے صہیونی قرار دیا جاتا ہے۔