میاں نواز شریف پاکستانی سیاست کا ’’کوہِ بے نور‘‘ ہیں مگر اس کے باوجود وہ پاکستانی سیاست کا ’’کوہِ نور‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ اس کوہِ بے نور کی صحت کیا بیماری کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ عمران خان کی حکومت نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ ذرائع ابلاغ نے اس کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا۔ عدلیہ اسے دیکھ کر عدل کو بھول گئی۔ یہاں تک کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ’’شہیدِ کوہِ بے نور‘‘ نظر آئی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میاں صاحب کی ’’بیماری‘‘ کی طاقت کا یہ عالم ہے تو ان کی ’’صحت‘‘ کی طاقت کا عالم کیا ہوگا؟ لیکن میاں نواز شریف کی بیماری کا قصہ کیا ہے؟۔
اس حوالے سے ارشاد بھٹی نے میاں صاحب کی برطانیہ پہنچنے کے دو دن بعد روزنامہ جنگ میں ایک ’’باخبر بیوروکریٹ‘‘ کا تبصرہ اپنے کالم میں شائع کیا ہے۔ باخبر بیورو کریٹ نے میاں صاحب کے سلسلے میں ارشاد بھٹی سے کیا کہا۔ ملاحظہ فرمائیے۔
’’آپ نے لندن جاتے ان کی تصویریں دیکھی ہیں، کیا وہ 69 سال کے تشویشناک حد تک بیمار شخص لگ رہے ہیں، چلو یہ رہنے دیں کہ اگر بندہ تشویشناک حد تک بیمار ہو تو پاکستان میں اسپتال کے بجائے گھر کیوں رہے گا، وہ تشویشناک حد تک بیمار وہ بذریعہ دوحہ لندن کیوں جائے گا، ڈائریکٹ کیوں نہیں، یہ دیکھیں، تھری پیس سوٹ، مفلر گلے میں، چہرے پر بیماری کارتی بھر اثر نہیں‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 21 نومبر 2019ء)
یہ تو تھا میاں صاحب کی بیماری کا ’’حال‘‘۔ کیا آپ میاں صاحب کی بیماری کے اضافے کو ان کے مستقبل کے منصوبوں سے ملا کر دیکھ رہے ہیں؟ حامد میر چوں کہ میاں صاحب کے عاشق ہیں اس لیے وہ میاں صاحب کی بیماری کے اضافے کو ان کے مستقبل سے متعلق منصوبوں کے ساتھ ملا کر دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے کالم میں فرمایا ہے۔
’’یہ جانے والا تین دفعہ وزیراعظم بنا اور تیسری دفعہ واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سزا یافتہ مجرم کا جہاز پر چڑھنا بھی حیران کن ہے اور اس کی واپسی بھی حیران کن ہوگی۔ واپسی سے پہلے اینٹی کلائمکس شروع ہوچکا ہوگا اور آپ کو ہر طرف بدنامیوں کا گرد و غبار نظر آئے گا‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 21 نومبر 2019ء)
حامد میر کہہ رہے ہیں کہ لندن جانے والا تین دفعہ وزیراعظم رہ چکا ہے اور وہ تیسری دفعہ واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ہے میاں نواز شریف کی بیماری کا اصل ’’راز‘‘۔ حامد میر کو معلوم ہے کہ میاں صاحب کو بیماری کی آڑ میں لندن بھیج کر میاں صاحب اور ان کے خاندان کا سیاسی مستقبل محفوظ کیا گیا ہے۔ اصل میں ہوگا کیا یہ تو اللہ اور اللہ والے ہی جانتے ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ نے بہرحال میاں صاحب کو بیماری کی آڑ میں کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے سزا پانے والے مجرم کا یہ مقام اور یہ مرتبہ، توبہ توبہ۔ ’’روح پاکستان‘‘ اگر کوئی انسان ہوتی تو اس کے سب پر مجاز کی بے مثال نظم آوارہ کے یہ بند ہوتے۔
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی، جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک دربدر مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
میرے سینے پر مگر دہکی ہوئی شمشیر سی
اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
دل میں اک شعلہ بھڑک اُٹھا ہے، آخر کیا کروں
میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے، آخر کیا کروں
زخم سینے کا مہک اٹھا ہے، آخر کیا کروں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
جی میں آتا ہے یہ مُردہ چاند تارے نوچ لوں
اس کنارے نوچ لوں اور اُس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا‘ سارے کے سارے نوچ لوں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
مفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے
سیکڑوں سلطانِ جابر ہیں نظر کے سامنے
سیکڑوں چنگیز و نادر ہیں نظر کے سامنے
اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں
تاج پر اُس کے دمکتا ہے جو پتھر توڑ دوں
کوئی توڑے یا نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
بڑھ کے اِس اِندر سبھا کا سازو ساماں پھونک دوں
اِس کا گلشن پھونک دوں، اُس کا شبستان پھونک دوں
تختِ سلطاں کیا، میں سارا قصرِ سلطاں پھونک دوں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
بیماری کی آڑ میں میاں نواز شریف کا لندن فرار قومی اداروں کے لیے ’’احساسِ جرم‘‘ بننا شروع ہوگیا ہے۔ اس کی پہلی مثال یہ ہے کہ عمران خان نے عدلیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ہے کہ ملک میں طاقت ور لوگوں کے لیے ایک قانون ہے اور کمزور لوگوں کے لیے دوسرا قانون طاقت ور لوگ سزا کے باوجود بیماری کی آڑ میں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور کمزور لوگ جیلوں میں پڑے سڑتے رہتے ہیں۔ عمران خان کی بات غلط نہیں ملک میں واقعتا دو قانون موجود ہیں مگر بدقسمتی سے خود عمران خان نے بھی دو قانون کی صورتِ حال پر مہر لگائی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو چاہے کچھ ہوجاتا وہ میاں نواز شریف کو ملک سے باہر نہ جانے دیتے، لیکن ان کے اعصاب نواز لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کی تاب نہ لاسکے۔
عمران خان کے بیان پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بہت زور سے بولے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ وزیراعظم ہمیں طاقت ور کا طعنہ نہ دیں۔ میاں نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت خود وزیراعظم نے دی ہے۔ ہائی کورٹ نے تو صرف جُزیات طے کی ہیں۔ انہوں نے یہ بات بھی بہت زور دے کر کہی کہ ’’طاقت ور‘‘ صرف ’’قانون‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی عدلیہ ماضی کی عدلیہ نہیں ہے۔ اب عدلیہ بدل چکی ہے۔ غور کیا جائے تو اس بیان میں خود ایک احساس جرم موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم نے خود طاقت ور کے سامنے گردن جھکائی تو عدلیہ نے انہیں ایسا کیوں کرنے دیا اور ان کی مزاحمت کیوں نہ کی۔ کیوں کہ جیسا کہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ موجودہ عدلیہ ماضی کی عدلیہ نہیں ہے۔عدلیہ بدل چکی ہے اور اس کے لیے صرف قانون طاقت ور ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے عدلیہ کے آزاد اور طاقت ور ہونے کی مثال یہ دی ہے کہ اس نے دو وزرائے اعظم کو نااہل قرار دیا ہے۔ اب وہ جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کا فیصلہ کرنے ہی والی ہے۔ عدلیہ کے لیے قانون سب سے طاقت ور ہوگیا ہے تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے مگر بدقسمتی سے اس سلسلے میں اب تک زیادہ شہادتیں دستیاب نہیں۔ اصغر خان کیس میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی اپنے بیان حلفی میں یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ انہوں نے مختلف سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کیں مگر ابھی تک عدالت عظمیٰ اس مقدمے کا فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔ لاپتا افراد کا مقدمہ بھی عدالت عظمیٰ میں عرصے سے موجود ہے اور عدلیہ کو عملی شہادتوں کی بنیاد پر معلوم ہوچکا ہے کہ لاپتا افراد کس کے پاس ہیں مگر لاپتا افراد کے مقدمے کا بھی اب تک فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ عدالت عظمیٰ نفاذ اردو کے سلسلے میں بھی ایک فیصلہ کیے ہوئے ہے مگر اس فیصلے پر بھی ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ چناں چہ چیف جسٹس کی اس بات پر کہ عدلیہ کے لیے صرف قانون ہی طاقت ور ہے ازراہ احترام خاموش تو رہا جاسکتا ہے مگر چیف جسٹس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا مگر یہاں ذکر ہے پاکستانی سیاست کے ’’کوہِ بے نور‘‘ کا۔ سوال یہ ہے کہ اس کوہِ بے نور کی طاقت کا مرکز کہاں ہے؟۔
اس سوال کا جواب شریفِ خاندان کے عاشق، راز دان اور جنگ کے کالم نگار حذیفہ الرحمن نے دو سال قبل اپنے کالم میں دیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا۔
’’پاکستانی سیاست میں پہلی بار ’’پنجابی سیاست دان‘‘ اور متحرک قوتوں کا آمنا سامنا ہوا ہے۔ اس بار اکھاڑہ پنجاب ہے۔ ’’پنجابی سیاست دان‘‘ (یعنی میاں نواز شریف) کو مائنس کرنا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ ۔ 5 اکتوبر 2017ء)
حذیفہ رحمن کے کالم کے اس اقتباس کا مطلب یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی اصل طاقت ’’پنجابی سیاست دان‘‘ ہونا ہے۔ اس سے قبل ہمارے جرنیل بنگالی، سندھی، بلوچی، پشتون اور مہاجر سیاست دانوں سے پنجہ آزمائی کرتے اور ان پر قابو پاتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار ان کا مقابلہ پنجابی سیاست دان سے ہے۔ چناں چہ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ نواز شریف سے کیسے نمٹیں۔
خورشید ندیم میاں صاحب کے صحافتی عاشقوں میں شامل ہیں۔ بدقسمتی سے انہوں نے بھی ایک کالم میں بہ الفاظ دیگر وہی بات کہی جو بات حذیفہ رحمن نے کہی ہوئی ہے۔ خورشید ندیم نے اپنے کالم میں میاں صاحب کے حوالے سے لکھا۔
’’پہلی بات تو نواز شریف کی ’’عصبیت‘‘ ہے۔ وہ پاکستان کے سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں۔ یہ ’’عصبیت‘‘ چالیس سالہ سیاست کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے ‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 28 اکتوبر 2019ء)
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
سوال یہ ہے کہ میاں صاحب کی ’’عصبیت‘‘ کی بنیاد کیا ہے؟ اسلام؟ اسلامی تہذیب؟ اسلامی تاریخ؟ امت مسلمہ؟ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ؟ پاکستانیت؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ ان تمام چیزوں کی عصبیتوں میں سے کسی عصبیت کے ساتھ میاں صاحب کو کچھ لینا دینا نہیں۔ میاں صاحب کی ایک ہی عصبیت ہے۔ پنجاب کی عصبیت۔ یہی بات حذیفہ رحمن نے اپنے کالم میں کہی ہے اور یہی بات خورشید ندیم کے بھی ذہن میں ہے۔ یہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ میاں صاحب خود کو ’’قومی رہنما‘‘ کہتے ہیں مگر ان کی قومیت کبھی پنجاب سے آگے نہیں بڑھتی۔ ان حقائق کا ادراک پیپلز پارٹی کے رہنما اور ممتاز وکیل چودھری اعتزاز احسن کو بھی ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ
’’پاکستان میں سندھی اور پنجابی کے لیے الگ الگ قانون ہے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس کراچی۔ 19 نومبر2019ء)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب کی طاقت کا اصل راز کیا ہے؟
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اسلام کی نظر میں کسی پنجابیت، کسی مہاجریت، کسی سندھیت، کسی بلوچیت اور کسی پشتونیت کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ مصور پاکستان اقبال نے کہا ہے۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
قائد اعظم جب تک زندہ رہے صوبائی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی مذمت کرتے رہے مگر پاکستان کے حقیر فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کو صوبائی، مسلکی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی جنت بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب جیسے کوہِ بے نور، کوہِ نور بنے ہوئے ہیں۔