یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ دنیا کے دو مختلف علاقوں میں ایک ہی دور میں چند ہی ماہ وسال کے فرق کے ساتھ جنم لینے والے تنازعات کشمیر اور فلسطین کو قدرت نے قسمت بھی ایک جیسی عطا کی ہے اور دونوں کے درمیان جذباتی اور نفسیاتی مسائل میں حیرت انگیزمماثلت بھی ہے۔ سرد جنگ کے دوران دونوں کے غاصب اور گلچیں اسرائیل اور بھارت اگرچہ دو مخالف کیمپوں میں تقسیم رہے اور دونوں کے درمیان تعلقات میں بظاہر گرم جوشی موجود نہیں تھی مگر وقت نے یہ باریک سا تضاد بھی ختم کر دیا اور سرد جنگ ختم ہوتے ہی اسرائیل اور بھارت اس انداز سے یک جان دو قالب ہوگئے اب دونوں میں حدِ امتیاز قائم کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کشمیر میں اسرائیل کے تجربات اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھا رہا ہے تو اسرائیل فلسطین میں بھارت کے تجربے کو بروئے کار لارہا ہے۔ سرد جنگ کے بعد امریکا نے یونی پولر دنیا کی واحد طاقت کے طور پر اپنے قائم کردہ نیو ورلڈ آرڈر کو کامیابی سے نافذ کرنے کے لیے دونوں تنازعات کو حل کرنے کے لیے نئے سرے سے کوششوں کا آغاز کیا۔ دونوں مقامات میں ایک جیسے ’’پیس پروسیس‘‘ کا آغاز کیا گیا۔ طویل المیعاد پیس پروسیس جو امن اور استحکام کے نام پر بھول بھلیوں سے عبارت تھا۔ اس پیس پروسیس کا سارا زور ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے نام پر پس پردہ اور خفیہ مذاکرات پر تھا یعنی اس میں عام آدمی کی نظر سے اوجھل معاملات طے کرنے کی سوچ کار فرما تھی تاکہ عام آدمی کو سوال اُٹھانے اور اعتراض کرنے کا موقع ہی نہ ملے اور جب ڈپلومیسی کا لاوا اچانک پھٹ پڑے تو پھر اس جذباتی ماحول میں کوئی اعتراض قابل اعتناء ہی نہ ٹھیرے۔
نوے کی دہائی میں کشمیر اور فلسطین میں ایک ہی انداز کے اس پیس پروسیس میں سب کچھ تھا سوائے مجروح فریق کی حتمی آزادی کے تصور کے۔ فلسطین کے پیس پروسیس میں اقتدار اعلیٰ کی حامل خودمختار ریاست کا تصور کہیں غائب تھا تو کشمیر کے لیے شروع ہونے والے پیس پروسیس میں بھی حتمی آزادی کا تصور دوردور تک کہیں موجود نہیں تھا۔ یہ مجروح فریق کو انتظار، خوش فہمی اور وقت کی بے مقصد راہوں پر گامزن کرنے کا ایک انداز تھا۔ شاید یہی وجہ ہے دونوں پیس پروسیس تھوڑی دور چل کر ناکامی کی طرف لڑھکنے لگے۔ وقت نے ثابت کیا کہ اس کا مقصد مسائل کو حقیقی انداز میں حل کرنے کے بجائے اسرائیل اور بھارت کی راہوں کے کانٹے چننا اور انہیں ترقی اور طاقت کے سفر میں اسپیڈ بریکرز سے محفوظ رکھنا تھا۔ دونوں میں اُبھرنے والی مزاحمتی تحریکوں میں دور دور کا عملی تعلق نہیں ہوتا مگر دونوں میں جاری مزاحمتی تحریکیں غیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے کے اثرات قبول کرتی رہی ہیں جیسے کہ الفتح سے متاثر ہو کر کشمیریوں کا نیشنل لبریشن فرنٹ اور الفتح بنانا۔ فلسطین کی لیلیٰ خالد کی تقلید میں کشمیری نوجوان حمید دیوانی کا جہاز اغوا کرنا۔ غلیل اور پتھر کا ہر دو جگہوں پر استعمال، فدائی طرز جنگ کا اپنانا اور حزب اللہ سے لشکر وجیش تک مسیحائوں کی تلاش کا انداز وانتظار سب ایک غیر محسوس تعلق کا پتا دیتا ہے۔ کشمیر آج ایک دیو کی قید میں محبوس اور مقید ہے تو ارض ِفلسطین بھی ایک بار پھر محصور اور خون آلود ہے۔ اسرائیل ایک بار پھر مظلوموں کے قاتل کے طور پر اپنی شناخت بنا رہا ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی حملوں میں تین درجن افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد بھی شامل ہیں۔ حالیہ حملوں میں اسلامی جہاد نامی تنظیم کے اہم کمانڈر بہا ابوالعطا اپنی اہلیہ سمیت شہید ہو گئے۔ حماس اور اسلامی جہاد نے کمانڈر کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اسرائیل کی ہوس ملک گیری اور زمین ہتھیانے کی خواہش اب ایک عارضہ اور جنون بن رہی ہے۔ 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں ہتھیائے گئے علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ پورے زوروں پر ہے۔ رہی سہی کسر 2017 میں امریکا کے اس فیصلے نے پوری کر دی ہے جس کے تحت امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا۔
فلسطینی عوام اپنی جس ریاست کی بحالی کے لیے لڑ رہے ہیں اس کا دارالحکومت بیت المقدس ہے اور عالمی قوانین اور قراردادوں کے تحت بھی یروشلم ایک مقبوضہ اور متنازع علاقہ ہے۔ یہی اصول غرب اردن اور غزہ پر لاگو ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں یہودی بستیاں عالمی قوانین کی رو سے غیر قانونی ہیں اور یہاں اسرائیل کی ہر کارروائی بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ امریکا نے اپنا دارالحکومت تل ابیب سے یروشلم منتقل کرکے حقیقت میں دو ریاستوں کے تصور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جس سے اسرائیل کو نیا حوصلہ ملا اور وہ فلسطینی علاقوں میں اپنی آبادیاں بڑھانے میں مصروف ہے۔ اسرائیل کی نئی آبادیاں اور بستیاں فلسطینی عوام کی ریاست کے تصور کو عملی طور پر ناقابل عمل بنا رہی ہیں۔ سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کے بعد فلسطینی عوام کا امریکا پر تھوڑا بہت بھروسا بھی ختم ہو گیا ہے۔ فلسطینی عوام اب امریکا کو ثالث ماننے کو تیار نہیں۔
یہ وہی امریکا ہے جس نے 1993 میں فلسطینی عوام اور قیادت بالخصوص پی ایل او کے قائد یاسر عرفات کو شیشے میں اتار کر معاہدہ اوسلو کرایا تھا اور یاسر عرفات بھی مستقبل کی آزاد وخود مختار ریاست کی موہوم امید پر معاہدے میں بندھنے پر آمادہ ہوئے تھے مگر کچھ ہی عرصے کے بعد انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ انہیں فلسطینی حریت پسندوں کے کریک ڈائون اور اسرائیل کی مشکلات کم کرنے کا وہ کام سونپا گیا ہے جو اسرائیل کے پولیس چیف کی ذمے داری تھی۔ اسی لیے یاسرعرفات نے اپنے اختیارات میں اضافے کی کوششیں شروع کیں اور اسرائیل اور امریکا کی طرف سے بھرپور دبائو کے باجود حماس اور اسلامی جہاد جیسی تنظیموں کے خلاف کھلی کارروائیوں سے گریز کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ ایک مرحلے پر یاسر عرفات کو رام اللہ کے کمپاونڈ میں محصور کر دیا گیا۔ اسرائیلی اوسلو معاہدے کے باجود فلسطینی علاقوں میں ناجائز تجاوزات کا سلسلہ جار ی رکھے ہوئے تھے اور جواب میں فلسطینی مظلوم اور کمزور عوام مزاحمت جاری رکھے ہوئے تھے۔ فلسطین مشرق وسطیٰ میں بدستور ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہ زخم جب تک رستا رہے گا خطے میں حقیقی اور پائیدار امن کا قیام ممکن نظرنہیں آتا۔ اسرائیل بتدریج ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے روایتی اور قدیم صہیونی تصور کی جانب عملی پیش قدمی کر رہا ہے ابھی اس کا ہدف اردن اور شام سے چھینے گئے علاقے ہیں اور یہ سلسلہ کہیں رکتا ہوا نظر نہیں آتا۔ جس انداز سے اسرائیل فلسطین کو ہتھیانے اور ہضم کرنے کی کوشش کررہا ہے بالکل اسی اصول اور طریقہ کار پر بھارت کشمیر میں عمل پیرا ہے۔ مہا بھارت اور گریٹر اسرائیل کے تصورات فلسطینی اور کشمیری عوام کا کچومر نکال رہے ہیں۔ دلخراش بات ہمارا مغالطہ ہے کہ جس امریکا اور امریکی انتظامیہ نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرکے فلسطین کی دو ریاستوں کے قدیم تصور کو ناممکن بنا دیا اسی امریکا سے ہم کشمیر میں ایک بھلے مانس اور مہربان کردار کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے فلسطین بارے رویے سے ہمیں کشمیر میں نوشتہ ٔ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔