انصاف کا معیار

208

عزت مآب چیف جسٹس پنجاب سردار شمیم خان نے درست فرمایا ہے کہ عدل کرنا خدائے بزرگ و برتر کا وصف ہے۔ منصف کی مسند پر براجمان شخص کا تب تقدیر کا نائب ہوتا ہے حق و انصاف پر مبنی فیصلہ ساٹھ سالہ عبادت کے برابر ہوتا ہے۔ ضلعی عدالت نظام عدل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی مقدمے کی سماعت دیوانی عدالت سے شروع ہوتی ہے اور فیصلے کے بعد فریقین اپیل کرتے ہوئے سیشن کورٹ، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں جاتے ہیں۔ چیف صاحب کی خواہش ہے کہ دیوانی عدالت کا فیصلہ عدالت عظمیٰ تک برقرار رہے، یہ خواہش قابل احترام ہے کسی بھی مقدمے کا فیصلہ کرنے میں سول جج کم از کم دس پندرہ سال تک فریقین کے صبر و تحمل کا امتحان لیتا ہے اور پھر مکمل اعتماد کے ساتھ فیصلہ سناتا ہے، اس عرصے میں مقدمے کی نوعیت اور مقاصد واضح ہوجاتے ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے سو، اپیل کی گنجائش رکھی گئی مگر بہتر یہ ہے کہ اپیل کی سماعت سے قبل یہ فیصلہ کیا جائے کہ اپیل غیر ضروری تو نہیں اگر فیصلہ قانون کے مطابق کیا گیا ہے تو اپیل در اپیل کے اذیت ناک عمل سے درگزر کیا جائے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب دیوانی عدالت کسی مقدمے کو عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کرتی ہے تو اپیل کا حق بے بنیاد ہوجاتا ہے۔ دنیا کی ہر عدالت ثبوت کی بنیاد پر سماعت کرتی ہے مگر ہماری عدالتیں بغیر ثبوت ہی کے سماعت کا آغاز کردیتی ہیں، اگر دیانت داری سے عدالتوں کی کارکردگی اور جج صاحبان کے فیصلوں پر غور کیا جائے تو یہ افسوس ناک حقیقت واضح ہوتی کہ ہمارا نظام عدل وکلا اور جج صاحبان کی شکم پری کا ذریعہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا علاج کے لیے بیرون ملک جانا ان کی ’’انا‘‘ پر کاری ضرب کے مترادف ہے جسے وہ برداشت نہ کرسکے اور عدالتوں پر برس پڑے جو کچھ خان صاحب نے عدالتوں کے بارے میں کہا ہے کہ اگر عام آدمی کہتا تو توہین عدالت کا مرتکب قرار پاتا۔ عدالت کی ہدایت پر عمل نہ کرنے کی بنیاد پر یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا گیا تھا مگر عمران خان کے معاملے میں عدالتیں تذبذب میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں کیوں کہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا فریق زبردست ہے، سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جو فریق کھوئے سے کھوا لگائے کھڑا ہے اسے عوام کے زخمی کندھے دکھائی کیوں نہیں دیتے اگر یہ زخم ناسور بن گئے تو پھر ان کا علاج ممکن نہ رہے گا۔ عدلیہ اور حکومت نے جی بھر کر ایک دوسرے کی دھلائی کی ہے مگر پسلیاں عوام ہی کی ٹوٹی ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس پاکستان نے جن لاکھوں مقدمات کا حوالہ دیا ہے۔ خدا جانے ان کے فیصلے کن عدالتوں میں ہوتے ہیں ہماری رسائی بہاولپور ہائی کورٹ تک ہے یہاں جو بھی مقدمہ آتا ہے اندھے کنویں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ برسوں سے پڑے مقدمات دیمک کی خوراک بن رہے ہیں، کئی کئی ماہ بعد پیشیاں دی جاتی ہیں مگر کبھی منسوخ کردی جاتی ہیں کبھی لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس پنجاب کا تعلق بہاولپور سے ہے، بہاولپور ہائی کورٹ کی کارکردگی سے واقف ہوں گے، بعض مقدمات کا فیصلہ دس پندرہ ماہ میں سنادیا جاتا ہے اور بہت سے مقدمات الماریوں میں قید انصاف کا ماتم کررہے ہیں، اگر توہین عدالت نہ سمجھا جائے تو یہ کہنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ قانون کی لغت میں انصاف کے کیا معنی ہیں؟ اور انصاف کی فراہمی کا معیار کیا ہے؟ انڈوں پر بیٹھی مرغی بھی جانتی ہے کہ بچے کب نکلیں گے مگر انصاف کی مسند پر بیٹھا ہوا شخص فیصلہ سنانے کی مدت کا تعین کرنے کی اہلیت سے محروم ہے۔ آخر کیوں؟۔