حضرت مولانا اور ان کا سیاسی اتحاد

218

 حضرت مولانا فضل الرحمن نے دھرنے کی بے مثال کامیابی کے بعد اس کے اثرات و نتائج پر غور کرنے کے لیے پھر ایک اے پی سی (آل پارٹیز کانفرنس) طلب کی ہے جس میں پلان اے اور پلان بی کی ’’کامیابی‘‘ کے بعد پلان سی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس پلان کے تحت پورے ملک کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں جلسے اور مظاہرے ہوں گے اور حکومت کو مطالبات ماننے پر مجبور کیا جائے گا۔ مطالبات وہی پرانے ہیں یعنی عمران خان استعفا دیں، اسمبلیاں تحلیل کی جائیں اور نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ جس روز اسلام آباد میں اے پی سی ہوئی اُس روز وفاقی دارالحکومت کو ایک نئے بحران نے گھیر رکھا تھا، یہ بحران تھا آرمی چیف کے ازسرنو تقرر یا مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق نوٹیفکیشن کا اجرا۔ اگرچہ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے خلاف ایک شخص نے ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی تھی لیکن جب اس شخص نے درخواست واپس لینا چاہی تو محترم چیف جسٹس نے اسے سوموٹو نوٹس میں تبدیل کردیا اور سرکاری نوٹیفکیشن میں متعدد غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے معطل کردیا۔ یہ موضوع ایسا تھا کہ میڈیا کی ساری توجہ اس کی جانب مبذول ہوگئی اور کسی نے حضرت مولانا کی اے پی سی کو گھاس بھی نہیں ڈالی۔ ویسے بھی مولانا نے جب سے دھرنا ختم کیا ہے میڈیا انہیں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہیں آئے بہت کچھ لے کر واپس ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پلان اے کے بعد پلان بی اور اب پلان سی پر اصرر کررہے ہیں۔ پلان اے کا تعلق دھرنے سے تھا اور مولانا کا دعویٰ تھا کہ وہ عمران خان کا استعفا لیے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ میڈیا ان کے دھرنے کو خوب کوریج دے رہا تھا ملک کے تمام سیکولر، لبرل، سوشلسٹ اور قوم پرست عناصر ان کی پشت پر تھے اور مولانا اچانک ان کی آنکھ کا تارا بن گئے تھے۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ مولانا عمران حکومت کا دھڑن تختہ کرکے ہی کنٹینر سے اُتریں گے لیکن پھر وہ عمران خان کا استعفا لیے بغیر کنٹینر سے اُتر گئے اور دھرنے کے شرکا کو اپنے اپنے مدرسوں میں واپسی کا اذن دے دیا۔ مولانا کی طرف سے کہا گیا کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اگر مقصد حاصل ہوگیا تھا تو پھر پلان بی پر عمل کیوں کیا گیا جس کے ذریعے قومی شاہراہوں کو بند کرنا اور ہر قسم کی آمدورفت اور نقل و حمل کو روکنا تھا۔ یہ پلان سراسر قانون کی خلاف ورزی اور دہشت گردی کی تعریف میں آتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ پلان بھی ہوا میں منتشر ہوگیا ورنہ بڑا فساد برپا ہوتا اور مولانا کی شامت آجاتی۔
اب پلان سی کے تحت ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں جلسے، جلوسوں اور مظاہروں کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ یہ ایک بے ضرر پروگرام ہے جس سے امن وامان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مولانا نے اے پی سی کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس پروگرام کو متحدہ اپوزیشن کی تائید حاصل ہے اس سے پہلے وہ دھرنے کے بارے میں بھی یہی تاثر دیتے رہے ہیں ان کے کنٹینر پر اپوزیشن لیڈروں نے کھڑے ہو کر تقریریں ضرور کیں لیکن ان کا کوئی کارکن دھرنے میں شریک نہ تھا، اب تو مولانا کے ایک اتحادی نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو نے برملا کہہ دیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کا ساتھ نہیں دیا، ہم سازشوں کے ذریعے وزیراعظم کو ہٹانے کے عمل کا حصہ نہیں بنیں گے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انتخابی اصلاحات کے ذریعے ملک میں صاف و شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے، اسی طرح ایک حقیقی منتخب نمائندہ حکومت قائم ہوسکتی ہے۔ حاصل بزنجو کی یہ بات اصولی طور پر بالکل درست ہے لیکن کوئی بھی سیاسی
جماعت پارلیمنٹ کے ذریعے انتخابی اصلاحات لانے اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف پچھلی پارلیمنٹ کا حصہ رہی ہے اس کے ارکان کی تعداد تیس پینتیس کے قریب تھی۔ عمران خان پارلیمنٹ سے باہر انتخابی دھاندلی کا تو شور مچاتے رہے لیکن پارلیمنٹ کے اندر دھاندلی کو روکنے کے لیے موثر قانون سازی پر توجہ نہ دی۔ وہ حکومت کی تبدیلی کا سارا کھیل پارلیمنٹ سے باہر کھیلنا چاہتے تھے، اب یہی کچھ حضرت مولانا کررہے ہیں۔ وہ اس کھیل میں ساری اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی بھی ایک موثر اپوزیشن جماعت ہے لیکن اس نے ابتدا ہی میں خود کو اس کھیل سے باہر کر لیا تھا، وہ قومی ترجیحات کے مطابق اپنی سیاسی سرگرمیاں ترتیب دے رہی ہے۔ مثلاً اس وقت سب سے اہم قومی ترجیح مظلوم کشمیریوں کی آواز پوری دنیا تک پہنچانا اور کشمیر ایشو پر پوری قوم کو متحد کرنا ہے، جماعت اسلامی یہ کام پوری یک سوئی سے کررہی ہے جب کہ حضرت مولانا جن سیاسی جماعتوں کی حمایت کا تاثر دے رہے ہیں ان کے پیش نظر اپنی سیاسی بقا کے سوا کوئی اور ٹارگٹ نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کے لندن جانے کے بعد منقار زیر پَر ہے ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی اپنے باپ کے پاس لندن جانا چاہتی ہیں اس لیے وہ مولانا کا ساتھ دینے سے کترا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے، بلاول مولانا کے کھیل کا حصہ بننے کو تیار نہیں جب کہ آصف زرداری جیل میں ہیں اور اپنی بیماری کے سبب مقتدر حلقوں سے کسی ریلیف کی توقع رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مولانا آخر سب تک تن تنہا اقتدار کی رسہ کشی کے اس کھیل کو کھیلتے رہیں گے؟ اور قوم کو کب تک اضطراب میں مبتلا رکھیں گے۔