۔22 سال پہلے کا منظر

173

 آج سے ٹھیک بائیس سال قبل‘ نومبر۱۹۹۷ء میں بھی عدالت عظمیٰ میں کمرہ نمبر ون کھچا کھچ بھرا ہوا تھا‘ چیف جسٹس سجاد علی شاہ وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کر رہے تھے‘ دو روز قبل بھی عدالت میں وہی منظر تھا‘ مگر اس وقت میڈیا محدود تھا آج تو بیسیوں کیمرے‘ سیکڑوں میڈیا پرسن عدالت عظمیٰ میں جمع تھے‘ وکلا کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے ماتھوں پر سوالیہ نشان سجائے بار روم میں بیٹھی تھی‘ عدالت عظمیٰ کا عملہ پریشان‘ فاضل ججوںکی نشستوں کے پیچھے کھڑے عدالتی اہل کار سب ایک ہی منظر دیکھ رہے تھے‘ ان میں متعدد نئے چہرے تھے۔ بائیس سال قبل‘ جی ہاں‘ بائیس سال قبل اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو رہی تھی اور اس واقعے کے پورے بائیس سال کے بعد اس بار عدالت عظمیٰ کے روبرو وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت تو نہیں‘ البتہ ان کی نالائقیاں زیر بحث تھیں‘ تب نواز شریف کی جانب سے ایس ایم ظفر ایڈووکیٹ معافی نامہ لیے بنچ کے رو برو پیش ہوئے‘ آج اٹارنی جنرل منصور خان عدالت میں حاضر ہوئے‘ قصہ کیا ہے کہ ہم بائیس سال بعد بھی وہیں کھڑے ہیں‘ انہی حالات سے گزر رہے ہیں جہاں اس وقت نومبر ۱۹۹۷ میں کھڑے تھے۔
ان بائیس سال میں نو منتخب وزراء اعظم اور تین نگران وزراء اعظم آچکے ہیں‘ اور ہمارے ملک کے سیاسی حالات ہی نہیں بدلے‘ اس وقت بھی وزیر اعظم کی قانونی ٹیم نالائق تھی کہ وہ وزیر اعظم کو توہین عدالت کی زمرے میں آنے والے الفاظ کا چنائو کرنے سے نہ روک سکے اور آج بھی وزیر اعظم کے پاس ایسی قانونی ٹیم ہے جسے علم ہی نہیں کہ آرمی چیف کے تقرر کے لیے رولز‘ قاعدہ اور قانون کیا ہے‘ طریق کار کن کن مراحل سے گزر کر مکمل ہونا ہے‘ ویسے اگر دیکھا جائے تو وزیر اعظم عمران خان کی قانونی ٹیم میں بڑے بڑے نام ہیں‘ ایسے بڑے نام کہ جنرل مشرف کو غداری کیس سے مکھن سے بال کی طرح الگ نکال لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں‘ مگر یہ کیا ہوا کہ آرمی چیف کے نئے تقرر کے لیے رول ہی نہ سمجھ پائے‘ واہ وزارت قانون‘ واہ… تیرے کیا کہنے…
آرمی چیف کے نئے تقرر کیس میں ہوا کیا ہے؟ وزارت قانون کی اس ٹیم نے ماضی کی مثال دیکھنا ہی گوارہ نہیں کی‘ آرمی ایکٹ کہتا ہے کہ ساٹھ سال کی عمر ریٹائرمنٹ کی عمر ہے‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کے خلاف دائر درخواست کا ریکارڈ ہی دیکھ لیا جاتا تو بات سمجھ میں آجانی تھی‘ ہوا یہ ہے کہ کمال درجے کی نالائقی کے باعث وزیر اعظم نے بھی جلد بازی دکھائی اور نہلے پہ دہلا ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھی وزارت قانون نے مارا‘ اس نالائقی پر مہر صدر پاکستان نے ثبت کردی‘ اس سارے قصے میں‘ وزیر اعظم اور صدر پاکستان‘ جنہیں قانونی نکات اور ان کی باریکیوں پر گرفت نہیں‘ کسی حد تک بے قصور ہیں لیکن ان کے پاس قانونی مشیروں کی فوج ظفر موج ہے یہ کس کام کے لیے ہے کہا جاتا ہے کہ قصور ان کا نہیں بلکہ جلد بازیوں اور بات اور مشورہ نہ سننے کے ضدی پن نے معاملہ یہاں تک پہنچا دیا عدلیہ کی مداخلت سے معاملہ سنبھل تو گیا مگر زخم اپنا نشان چھوڑ گیا ہے۔
ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت اور ہماری حکومتوں کا ایک المیہ رہا ہے اور اس وقت بھی ہے کہ پڑھنا لکھنا ان کی عادت نہیں رہی‘ کسی بھی سیاسی جماعت کے قائد سے پوچھ لیں‘ پڑھائی لکھائی اور مطالعہ ان میں سے کسی کی بھی عادت نہیں ہے‘ ان سب نے بس دو چار الفاظ یاد کر رکھے ہیں انہیں ہی آگے پیچھے کرکے بیان جاری کیے جاتے ہیں‘ اپوزیشن کرنے کی عادت اس قدر پختہ ہوچکی ہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب مل جانے پر بھی لہجہ اور رویہ اپوزیشن جیسا ہی رہتا ہے‘ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی دوسری بڑی خامی یہ بھی ہے کہ انہیں کچھ سمجھایا جائے تو برا مان جاتے ہیں‘ لہٰذا ان کے وزراء اور مشیروں کی ایک عادت بن چکی ہے کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو قائد کی طبیعت پر گراں گزرے‘ جہاں یہ حالات ہوں گے تو وہاں مسائل تو پھر ہوتے ہیں‘ کہیں بھی ریاست کا جائزہ لے لیں‘ عدلیہ کا کردار سب سے اہم ہے۔ پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے اور عدلیہ قانون کی تشریح کا حق رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے قوانین کی تعبیر و تشریح کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جمہوری ملکوں میں حکومتیں آئینی و قانونی الجھنوں سے دوچار ہوں تو وہ عدلیہ سے رجوع کرتی ہیں۔ اپوزیشن کسی قانون میں وضاحت کی ضرورت محسوس کرے تو عدالت کے پاس جاتی ہے عام آدمی کسی قانون پر عملدرآمد میں کسی نقص سے خود اپنے اوپر یا معاشرے پر اثرات کا شاکی ہو تو بڑی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ عدلیہ بھی کسی مرحلے پر محسوس کرے کہ کسی قانون کے الفاظ اور روح کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا جا رہا ہے تو وہ بھی ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کرتی ہے۔ قوانین کی کسی ایک یا دوسری رائے پر مبنی تشریح اپنے دامن میں بحران کے ایسے امکانات رکھتی ہے جن سے بچنے کی واحد صورت اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنا یا اعلیٰ عدلیہ کا ازخود نوٹس لینا ہی ہے آئین کے محافظ ادارے کی حیثیت سے عدلیہ کسی قانون کی جو تعبیر کرتی ہے وہی معتبر اور قوتِ نافذہ کی حامل ہوتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو معطل کرنے کے لیے از خود نوٹس لینے کا جو اختیار استعمال کیا اس سے اس معاملے کی غیر معمولی قانونی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے حکومت کے ہامی کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس کھوسہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے 24روز پہلے آرٹیکل 183(3) کے تحت سوموٹو اختیارات استعمال کرتے ہوئے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حکومتی اعلان کے حوالے سے قانونی تشریح کی ضرورت محسوس کی؟ عرض ہے جسٹس کھوسہ ہوں یا کوئی اور جج‘ جب تک وہ منصب پر ہے‘ بطور جج عدالت عظمیٰ کے اختیارات آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے استعمال کرتا رہے گا یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ آئین کے محافظ ادارے کی حیثیت سے عدلیہ کسی قانون کی جو تعبیر کرتی ہے وہی معتبر اور قوتِ نافذہ کی حامل ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے اپنی اصلاح کرے اور مشورہ لینے کی عادت اپنائے۔