پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان کی موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسائل کے سدباب سے زیادہ مسائل تخلیق کررہی ہے۔ حکومتی نظام میں ایسی منفی ’’تبدیلی‘‘ پوری قوم پہلی بار دیکھ رہی ہے۔ اپنے ہی موقف کو بدل کر نئی راہ پر چلنا تو کوئی وزیراعظم عمران خان سے سیکھے۔ عمران یہ ثابت کررہے ہیں کہ ان کے دو روپ ہیں۔ ایک روپ وہ تھا جو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے لوگ 2013 تا 2018 دیکھ چکے اور ایک چہرہ وہ جس سے وہ خود بطور وزیراعظم لوگوں کو متعارف کرارہے ہیں۔ 2008 سے پہلے اور 2018 بلکہ 2019 تک عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے سخت مخالف نظر آتے تھے۔ وہ فوج سمیت کسی بھی ادارے کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے سخت مخالف تھے۔ اس وقت عمران خان کی باتوں سے ایسا تاثر ملا کرتا تھا کہ وہ ملک کی تاریخ کے واحد لیڈر ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر خالصتاً عوامی طاقت سے منتخب ہوکر اقتدار میں آئیں گے۔ وہ کبھی بھی کسی جرنیل کی حمایت نہیں کریں گے اور اقتدار میں آنے کے باوجود نہ کسی جنرل کی ملازمت میں توسیع کریں گے اور نہ ہی کسی اور ادارے کے سربراہ کی مخالف و حمایت کریں گے۔
یہ توقع قوم کو ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کی اپنی باتوں سے پیدا ہوئی تھی۔ وزیراعظم اقتدار میں آنے سے قبل اپنے ایک سے زائد ٹی وی انٹرویو میں یہ بات کہہ چکے تھے کہ اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو اس وقت کے ارمی چیف جنرل کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں دیتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ محکموں کو افراد نہیں ادارے چلاتے ہیں۔ یہ بات وہ 2009 سے 13 کے درمیان کہتے رہے۔ مگر جب 2018 میں وہ خود وزیراعظم بنے تو اپنے موقف کو بھول 2019 میں جنرل باجوہ کی نہ صرف کی مدت ملازمت میں مزید 3 سال کے لیے توسیع کا فیصلہ کیا بلکہ ان کے لیے ایسا مضحکہ خیز نوٹیفیکشن بھی جاری کیا جو اب متنازع قرار دیے جانے کے بعد معطل قرار دیا جاچکا ہے۔ اگرچہ اس نوٹیفیکشن کو عدالت عظمیٰ کے حکم سے 26 نومبر معطل قرار دیا گیا لیکن محض دو دن میں اسی عدالت نے اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے جنرل باجوہ کو مزید چھ ماہ تک بدستور کام کرنے کی اجازت دے دی۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے کو معطل کرنے اور بعدازاں ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 29 نومبر سے پہلے ہی انہیں چھ ماہ مشروط خدمات انجام دینے کی اجازت تک ملک میں جو ہلچل مچی رہی وہ بھی خاصی دلچسپ تھی۔ مگر چھ ماہ جنرل باجوہ کو کام کرنے کی مشروط اجازت سے قوم کو یقین ہوگیا کہ ’’خلائی مخلوق‘‘ نام کی کوئی شے تو ملک میں موجود ہے۔ جسے زیر کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس لیے پاکستانی عوام یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ تبدیلی سرکاری یعنی تحریک انصاف کی حکومت کے دوران بھی زیادہ سے زیادہ تبدیلی کی بازگشت چل سکتی ہے مگر واضح تبدیلی نہیں آسکتی۔ قوم کو یہ یقین ہونے لگا ہے کہ نظام کی تبدیلی کے نعروں کی گونج کو متعارف کرانے والوں کے سسٹم کو بھلا کون تبدیل کرسکتا ہے؟۔ لیکن ذہنوں میں یہ سوال بھی ہے کہ ’’پھر نومبر کے آخری ہفتے میں اٹھنے والا یہ شور کیوں اور کیا تھا؟ کچھ لوگ اس ’ہوا‘ کو فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنے سے منسوب کرنے لگے تھے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ عدالت نے اپنے آئینی اور قانونی اور روایتی مثالی کردار سے ثابت کردیا کہ وہ ملک کے اہم اداروں اور ان سے منسلک شخصیات کو بھی اپنے کردار سے مستحکم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور پائی جانے والی غیر یقینی کو آئین اور قانون کی کتابوں کی مدد سے ختم کرسکتی ہے۔ پس یقین کرلیں کہ آئندہ چھ ماہ بعد آرمی چیف کا تقرر بھی خالصتاً آئین کے مطابق ہوسکے گا، کیونکہ چھ ماہ کے اندر اس حوالے سے عدالت کے حکم پر نئی قانون سازی کرلی جائے گی اور اب تک غلط ہوتا رہا اسے ختم کرکے قانون کے دائرے میں لے آیا جائے گا۔ اس طرح قوم کو نئے چھ ماہ کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ مگر اس بات کا کوئی یقین نہیں دلاسکتا کہ آئندہ نصف سال تک کیا یہی تحریک انصاف کی حکومت برقرار رہے گی؟ اگر ایسا ہوگا تو اس مطلب ہے کہ قوم کی آزمائش کا سلسلہ جاری رہے گا۔ عوام کو صبر کے کڑوے گھونٹ اسی طرح پیتے رہنا پڑے گا۔