پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مجموعی عرصے میں دو نظریات ’’مٹی پائو‘‘ اور ’’نظریہ ٔ ضرورت‘‘ کی کارفرمائی رہی ہے۔ یہی دو نظریات یہاں کی مضبوط سیاسی روایت اور آئین رہے ہیں۔ نظریہ ٔ ضرورت اور مٹی پائو دونوں فارمولوں کی عمر قریب قریب ایک ہی ہے۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی دونوں نظریات یہاں مختلف انداز سے نافذ اور لاگو ہوتے رہے۔ این آر او ٹائپ معاہدوں کو اصل نام چودھری شجاعت حسین نے ’’مٹی پائو‘‘ کی صورت دیا۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے ایک اہم کیس میں اپنے فارمولے کے اطلاق پر ایک بار پھر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں عوامی فلاح وبہبود کے کاموں پر توجہ دینے کے بجائے نئے گورکھ دھندوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ مشرف کیس کا نیا کٹا کھولنا غیر ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھرنا کلچر سے فارغ ہوئے تھے کہ مشرف کیس نے سر اُٹھالیا۔ چودھری شجاعت حسین کا شمار ملک کے سینئر اور زیرک سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ گجرات کا نت ہائوس راولپنڈی کے ساتھ ربط وتعلق کے دیرینہ سیاسی رشتوں میں ایک مدت سے بندھا ہوا ہے۔ چودھری ظہور الٰہی کی شہادت کی وجہ بھی یہی تھی کہ کچھ بیرونی طاقتوں کو یہ قربت کھٹک رہی تھی۔
چودھری شجاعت حسین ملک میں رواداری کی سیاست کے قائل اور علامت ہیں۔ ملک کے کئی سیاسی بحرانوں میں انہوں نے فریقین کے درمیان شٹل ڈپلومیسی کرکے اپنے تئیں بحران کو ٹالنے کی کوشش کی ہے یہ الگ بات کہ کبھی یہ کوشش اپنا رنگ لے آئی تو کبھی رنگ جمنے نہ پایا۔ اس کے لیے اکبر بگٹی اور لال مسجد کے بحرانوں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ چودھری شجاعت کو سیاست میں ’’مٹی پائو‘‘ کلچر اور رسم وریت کا حامی بھی سمجھا جاتا ہے۔ یعنی یہ کہ ماضی کو بھول بھال کر آگے چلا جائے۔ اسی لیے ’’مٹی پائو‘‘ کی اصطلاح ان کی چھیڑ بھی بن چکی ہے اور پہچان بھی۔ مٹی پائو کی اصطلاح میں ایک گہری فلاسفی بھی ہے اکثر اوقات یہ کلیہ لاگو کرنا اور اس سے استفادہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ مثالیت پسندی کو طاق میں رکھنا عملیت پسندی اور حالات کا تقاضا بن جاتا ہے۔ ماضی کے حالات وواقعات کی قید میں رہ ماضی کی لکیر پیٹنے سے آگے کا سفر طویل اور منزل کھوٹی ہو جاتی ہے۔ قافلے گزر جاتے ہیں اور لکیر پیٹنے والے لکیر سے مشق ستم کرتے نظر آتے ہیں۔ ماضی کو حصار بنانا اور ماضی کی یادوں میں گم اور معاملات میں غلطاں رہنا چنداں صحت مند رویہ نہیں مگر ماضی کے کچھ قرض چکانا بھی قوموں پر فرض ہوجاتا ہے۔ ماضی کو مستقبل کی راہوں کی مشعل راہ کے طور پر قبول کرنا اور اپنانا زندہ قوموں کا شیوہ ہوتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا عہد اقتدار آغاز سے انجام تک پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ناخوش گوار اور ناپسندیدہ باب ہے۔ اس دس سالہ اقتدار نے ہمارے قومی وجود کو جو چرکے لگائے ہیں آج بھی ان کی کسک محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ سیاسی حادثات اور روح فرسا واقعات سے بھرپور ایک عہد تھا جو بمشکل اس وقت تمام ہوا جب وکلا سمیت معاشرے کے ہر طبقے نے کھڑے ہو کر ’’چلے بھی جائو کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ ایک بھرپور عوامی تحریک نے جنرل مشرف کو کمزور کیا اور وہ پرنم آنکھوں سے ایوان ِ اقتدار سے باہر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وہ اس وقت ملک میں غداری کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے مقدمے کو غداری کے بجائے آئین شکنی کا مقدمہ کہنا چاہیے۔ آئین کسی قوم وملک کی اکائیوں کو جوڑنے کے شیرازے کا کام دیتا ہے اور اس شیرازے کو بکھیرنے کا مطلب ملک سے وفاداری تو نہیں ہوسکتا۔ بھلے اسے غداری نہ کہا جائے۔ اس لیے پاکستان کو مستقبل کی روشن راہوں پر ترقی کی منازل طے کرنا ہیں تو ماضی کے طور طریقوں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ بے مقصد سویلین بالادستی نہ سہی مگر مضبوط مشاورت کے نظام کے تحت آگے بڑھنا ہے ایسا نظام جہاں ادارے اپنے دائروں میں آزادی کے ساتھ گردش کررہے ہوں۔
چودھری شجاعت حسین جنرل مشرف کے فوجی اقتدار کے سیاسی چہروں میں شمار کیے جاتے تھے اس لیے ان کی طرف سے اس کیس پر مٹی پائو فارمولے کے اطلاق کی وکالت کا بھی اپنا پس منظر ہے مگر عدالت کو قانون کی سیدھ میں اسی راہ پر آگے بڑھنا ہے۔ مشرف کو اپنے دفاع کا بھرپور موقع ملنا چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک کر قانونی تقاضے اور انصاف کے اصول کی پیروی کی۔ یہ وقتی رعایت مستقل حل ہے نہ کیس اس انجام کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ قانون کا پہاڑی ندی کی طرح اپنا راستہ بناتے چلے جانا ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس طرح اگر ہر بات مٹی پائو کے اصول کی نذر ہوتی رہی تو جزا اور سزا کا تصور ہی بے معنی ہوجائے گا۔ اس لیے جنرل مشرف کا کیس ’’نیا کٹا‘‘ اور نیا گھورکھ دھندہ نہیں پرانا کیس اور قصہ ہے جس کی تکمیل سے ایک اصول ہمیشہ کے لیے طے ہوجائے گا۔ چودھری شجاعت حسین کی یہ بات اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ حکومت مشرف کیس سے نکل کر عوامی فلاح وبہبود کے کاموں پر توجہ دینا چاہیے مگر اس کے لیے مشرف کیس کو بھول بھال جانا کیا ضروری ہے۔ مشرف کیس سمیت کسی دوسرے کیس نے بھی نہ ماضی کی اور نہ موجودہ حکومت کو عوامی فلاح وبہبود کے کاموں سے روکا ہے۔ حکومتیں کام نہ کرنا چاہیں تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ قانون حکومتوں کی کارکردگی تک اپنا کام چھوڑ نہیں سکتا۔ عدالتوں کو مسلسل اپنا کام کرتے چلے جانا چاہیے۔ عوامی فلاح وبہبود بلاشبہ عین تقاضائے وقت ہوتا ہے۔ فرد سے ریاست تک ہر وجود کے لیے لمحہ موجود میں رہنا بھی ضروری ہوتا ہے مگر ماضی سے لاتعلق ہوجانا اور ماضی سے نظریں چرانا مستقبل کے لیے بھی اچھا شگون نہیں ہوتا۔ درگرز اور معافی کا اصول انفرادی طور پر تو لاگو ہوتا ہے مگر جب کسی حکمران یا بااثر شخصیت کے ہاتھوں اجتماعیت کو گزند پہنچے تو پھر اس مسئلے پر فرد کے درگزر کا اصول لاگو نہیں ہوسکتا۔ آئین اور بنیادی حقوق بھی اجتماعیت کا معاملہ ہوتا ہے۔ آئین اجتماعیت کے حقوق کا ضامن اور محافظ ہوتا ہے۔ پرویز مشرف نے آئین کو لپیٹ کر پوری آبادی کو ان کے حقوق سے محروم کیا ہے اس لیے یہاں اس کیس میں ’’مٹی پائو‘‘ فارمولے کا اطلاق کچھ جچتا نہیں۔ زندہ قوموں کا شعار یہ ہے کہ وہ ماضی کے واقعات کی روشنی میں مستقبل کا سفر طے کرنے کی کوشش کرتی ہے۔