انصاف یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

230

ایک قانونی استثنیٰ تخلیق کرکے عدالت عظمیٰ نے عدلیہ اور فوج کے درمیان پرانی آشنائی اور رشتوںکی یادیں تازہ کردیں ہیں۔ عدلیہ کے باب میں نظریہ ضرورت کہتے اب ہمیں شرم آنے لگی ہے۔استثنیٰ اس کا مترادف ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے عدالت چیک کررہی ہو کہ ڈیڑھ برس سے آرڈی ننسوں کے ذریعے گلشن کا کاروبار چلاتی ہوئی حکومت قانون سازی کے معاملے میں سو تو نہیں گئی ہے۔ الیکشن کے موقع پر ایک لیڈر نے کہا ’’مجھے بڑی خوشی ہے کہ میں آپ کے شہر حیدرآباد کے دورے پر آیا ہوں‘‘۔ حاضرین نے چلاکر کہا ’’یہ حیدرآباد نہیں فیصل آباد ہے‘‘۔ لیڈر نے جواب دیا ’’میں جانتا ہوں یہ فیصل آباد ہے میں دیکھنا چاہتا تھا آپ لوگ سو تو نہیں رہے‘‘۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے ایک غیرقانونی تقرر کو ایک ایسے قانون کی چھتری فراہم کی ہے جو موجود ہی نہیں۔ ممکنہ طور پر اگلے چھ ماہ کے اندر ایجاد کیا جائے گا۔ فیصلہ بھی دہائی دیتا ہوگا:
نا مکمل مجھے کیوں چھوڑ دیا
کون پوچھے گا میرے آذر سے
عدالت کو جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو اگر برقرار رکھنا ہی تھا تو کیا ضرورت تھی تین دن تک امیدوں کو کوٹھے چڑھا کر سیڑھی کھینچ لینے کی۔ درخواست گزار نے جب درخواست واپس لینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اسی وقت کیس ختم کردیا جاتا اور قانونی سقم کی نشاندہی کرتے ہوئے حکومت کو قانون سازی کا حکم دے دیا جاتا۔ یا پھر عدالت آئین اور قانون کے مطابق سیدھا سیدھا فیصلہ دے سکتی تھی کہ فوج کے نئے سربراہ کا تقرر کیا جائے۔ بات یہ ہے کہ انصاف۔ یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔
وہ اس قدر گر چکا ہے، راہ سے اتنا بھٹک گیا ہے
کہ اس کے چہرے کا نور ماند پڑ گیا ہے
اس کے سپید بالوںکا نور ماند پڑ گیا ہے
ہم اس کو جن باتوں کے لیے چاہتے تھے
اور جن کے لیے اس کی تعظیم کرتے تھے
ان میں سے سوائے جسم کے کچھ بھی باقی نہیں بچا
گزرے وقتوں کا احترام
اس کی مردہ شہرت کے لیے وقف رکھو
نگا ہیں پھیر کر الٹے پائوں چلے چلو
اور خجالت کو دونوں ہاتھوں سے چھپا لو
عدالتی فیصلے کا جواز دیتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ اگر 28نومبر کو عدالت حکومت کو نئے چیف کے تقرر کا حکم دیتی تو ملک میں بحران پیدا ہوجاتا۔ ہمارے یہاں ان دیکھے غیر یقینی خوف کے تحت فیصلے دینے کی ایک تاریخ ہے۔ حاجی سیف اللہ کیس میںجونیجو اسمبلی بحال نہ کرنے کا یہ جواز تراشا گیا تھا کہ ملک میں بحران پیدا ہوجائے گا۔ پرویز مشرف کے دور میں تمام جج پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کردیتے تو اس کے جواز میں بھی تفصیلی فیصلے میں یہی کہا گیا تھاکہ اس کا نتیجہ وہ کچھ ہوتا جو مہذب معاشروں میں نہیں ہوتا۔ اگر عدالت عظمیٰ جنرل باجوہ کی توسیع کا فیصلہ کالعدم کردیتی تو یہ جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ ملک میں کیا بحران پیدا ہوجاتا۔ کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی۔ کیا ہماری فوج اتنی تہی دامن ہے کہ اس کے پاس جنرل باجوہ کی جگہ لینے کے لیے کوئی دوسرا جنرل نہیں ہے۔ اگر حکومت کو نیا چیف مقرر کرنے میں کچھ وقت بھی لگ جاتا تو فوج کے نظام میں یہ انتظام موجود ہے کہ آرمی چیف کی غیر موجودگی میں سینئر جنرل معاملات سنبھال لیتا ہے۔ جنرل ضیاالحق کے طیارہ حادثے میں فوج کی بیش تر اگلی قیادت ختم ہوگئی تھی فوج میں قیادت کا کون سا بحران پیدا ہوا؟ انصاف شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالنے سے خائف ہونے کا نام نہیں ہے۔ اداروں کا احترام اور وقار عزیمت سے جنم لیتا ہے۔ عزیمت کا راستہ پاگل پن کا راستہ نہیں ہے۔ فیصلوں کے التوا سے اعلیٰ روایات جنم نہیں لیتیں بلکہ انصاف حکمران طبقے کے دیوتائوں کی گرفت میں آجاتا ہے۔
کسی دیوتا نے بالوں کو جڑوں تک
گرفت میں لے کر عدل پر قابو حاصل کرلیا ہے
عدل صحرا میں دم توڑتے مسافر کی طرح
دیوتا کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے
قانون سازی کے نام پر گمان یہی ہے کہ ملک کئی ماہ تک سیاسی بحرانوں کی زدمیں رہے گا۔ عمران حکومت ایک کمزور حکومت ہے جس کا وجود اتحادیوں کا رہین منت ہے۔ قانون سازی کے لیے حکومت کو اپوزیشن کا تعاون چاہیے جس کی تضحیک اور تذلیل کا کوئی موقع وہ جانے نہیں دیتی۔ اپوزیشن کے معاملے میں عمران خان ایک منتقم مزاج شخص ثابت ہوئے ہیں۔ آرمی چیف کے تقرر اور عدالتی فیصلے پر اپوزیشن نے منفی بیان بازی سے گریز کیا ہے۔ قانون سازی کے لیے اپوزیشن کا تعاون لازم ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان ایسا ماحو ل پیدا کررہے ہیں کہ اپوزیشن تعاون کرنا بھی چا ہے تو نہ کرسکے۔ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ قانون سازی کے لیے مناسب ماحول کی نشونما کو عمران خان اپنی ذمے داری خیال نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں بگڑے معاملات کو سلجھانا ان کی نہیں کسی اور کی ذمے داری ہے۔ شیخ رشید نے اپنے ایک بیان میں اس طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ قانون سازی جن کی ضرورت ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کے تقاضے کس طرح پورے کیے جاتے۔ اگر سینیٹ کے الیکشن کی تاریخ دہرائی گئی یا اپوزیشن کو اندروں بلیک میل کرکے تعاون پر آمادہ کیا گیا تو جنرل باجوہ اور فوج کے معاملے میں فضا مزید مکدر ہوجائے گی۔
اس بات میں کیا کلام کہ عمران خان کی حکومت اللہ کے بعد جنرل باجوہ کے تعاون اور سہارے پر یقین رکھتی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے لیے اس میں خیر کا پہلو ہوتو ہو فوج کے لیے یہ خیال اچھی بات نہیں۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں جنرل باجوہ اور پاکستان کی سیاست میں فوج کا کردار زور وشور سے بحث اور مباحثوں کا موضوع رہے گا۔ یہ بھی نیک شگون نہیں۔ عمران خان کی حکومت جس شدت سے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے درپے ہے اس سے یہ تاثر یقین میں بدل رہا کہ پاکستان میں سول حکومتوں کی بقا آرمی چیف کی تائید سے جڑی ہے۔ کارکردگی یاعدم کارکردگی سے اس کا تعلق نہیں۔