حکومت سندھ کی عدم دلچسپی، بلدیہ عظمیٰ کا مالی بحران مزید بڑھ گیا

67

کراچی (رپورٹ: محمد انور) حکومت سندھ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کا مالی بحران ختم نہیں ہوسکا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بلدیہ کراچی کو اپنے 15 ہزار ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ تمام ترقیاتی اور دیکھ بھال کے معمول کے امور بھی معطل ہوچکے ہیں۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ تنخواہوں اور گرانٹ ان ایڈ کی مد میں بھی منظور شدہ گرانٹ دینے سے گریز کرنے لگی ہے یا وقت پر نہیں جاری کررہی ہے، جس کی وجہ سے کے ایم سی کی مالی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ خیال رہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے ان دنوں تنخواہوں و گرانٹ ان ایڈ کی مد میں ماہانہ 800 ملین روپے کے ایم سی فراہم کیے جاتے ہیں جس میں سے 21 کروڑ 50 لاکھ روپے 6 ضلعی بلدیاتی اداروں اور ایک ضلع کونسل کراچی کے ریٹائرڈ ملازمین کی پیشنز کی مد میں انہیں دیے جاتے ہیں۔ صرف 59 کروڑ روپے کے ایم سی کے پاس رہ جاتے ہیں جو تنخواہوں کی مد میں بھی ناکافی ہوتے ہیں کیونکہ کے ایم سی کو اپنے 15 ہزار ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں ماہانہ 67 کروڑ روپے کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ادارے کو ہر ماہ 7 کروڑ روپے کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کے ایم سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مالی بحران کی وجہ سے کے ایم سی اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں ہونے والے 15 فیصد اضافے کی ادائیگی شروع نہیں کرسکی جبکہ کے ایم سی فائر برگیڈ کے ملازمین کو 17 ماہ کے فائر فائٹنگ الاوئنس کی مد میں 30 کروڑ روپے بھی ادا نہیں کرپارہی۔ مالی دشواریوں کی وجہ سے کے ایم سی کے تمام ترقیاتی و دیکھ بھال کے منصوبوں پر کام معطل ہوچکا ہے کیونکہ حکومت سندھ گزشتہ سالانہ ترقیاتی مد میں ڈھائی ارب اور رواں کوارٹر سال کے ایک ارب روپے تاحال جاری نہیں کرسکی۔ دوسری طرف کے ایم سی اپنے ریٹائرڈ ملازمین کی مد میں 3 ارب روپے کی پنشن اور لیو انکیشمنٹ کی مد میں 29 کروڑ روپے کی مقروض ہوچکی ہے۔یہ قرض ہر ماہ بڑھتا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ایم سی کا مالی بحران ختم کرنے کے لیے فوری طور پر 10 ارب روپے کی مالی مدد کی ضرورت ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مالی بحران کے باوجود میئر وسیم اختر اور میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن کی طرف سے عدم توجہ و عدم دلچسپی کی وجہ سے کے ایم سی کے اپنے ذرائع سے آمدنی میں اضافے کے بجائے غیر معمولی کمی آچکی ہے۔ تاہم اس مالی بحران سے شعبہ لینڈ مینجمنٹ، اینٹی انکروچمنٹ، باغات، چارجڈ پارکنگ اور فنانس کے افسران کی غیر قانونی آمدنی پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا۔ خصوصی طور پر شعبہ اینٹی انکروچمنٹ کے افسران کی دو نمبر آمدنی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے کیونکہ وہ انکروچمنٹ ہٹاکر چند روز میں دوبارہ لگانے کی اجازت دینے کے بھتے میں 100 فیصد اضافی رقم وصول کرنے لگے ہیں۔