آصف جیلانی
شمالی اوقیانوس کے معاہدے۔ NATO کے فوجی اتحادکے قیام کا بنیادی مقصد یورپ اور امریکا کا سویت یونین کے حملے کے خطرہ کا دفاع کرنا تھا لیکن سویت یونین کے مسمار ہونے کے بعد اس معاہدے میں سویت یونین کے پرانے زیر اثر مشرقی یورپ کے ممالک بھی شامل ہوگئے تاکہ یہ ناٹو کے چھاتا تلے روس کے خطرے کا مقابلہ کر سکیں۔ ستر سال قبل جب ناٹو قائم ہوا تھا تو اس وقت امریکا اور یورپ کے بارہ ممالک اس اتحاد میں شامل تھے، اب اتحاد کے اراکین کی تعداد 29تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا میں 9/11 کے حملے کے بعد امریکا نے معاہدہ کے آرٹیکل 5کا سہارہ لیا جس کے تحت ناٹو کے ایک رکن ملک پر حملہ تمام رکن ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسی آرٹیکل کے تحت ناٹو کی افواج نے افغانستان کی جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ پھر جب عراق پر امریکا اور برطانیہ نے حملہ کیا تو ناٹو بھی اس میدان جنگ میں کود پڑا، اس موقع پر یورپ سے چند آوازیں بھی اٹھی تھیں کہ عراق کی جنگ سے یورپ کا کیا واسطہ۔ انہیں غالباً یہ علم نہیں تھا کہ عراق کے تیل سے یورپ کے اہم ملکوں کا گہرا مفاد وابستہ ہے اور پھر اسرائیل کا دفاع بھی ان پر لازم ہے جس کے لیے عراق کو نیست و نابود کرنا ضروری ہے۔ 2009 میں ناٹو نے یمن میں مداخلت کی اور جواز یہ پیش کیا گیا کہ یمن کے ساحل کے قریب قزاقوں کی وجہ سے امریکا اور یورپ کی جہازرانی کو خطرہ ہے۔ اور پھر لیبیا میں قذافی کی حکومت کے خاتمے کے لیے ناٹو نے کھلم کھلا باغیوں کی مدد کے لیے حملے کیے۔
ناٹو کی فوجی توسیع پسندی کے بعد اب اس فوجی اتحاد کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر ناٹو کے رکن ممالک کے سربراہوں کے لندن کے مضافات میں دو روزہ اجلاس میں چین کو بھی اپنے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ چین کے خطرات کے سائے، بحرالکاہل اور قطب شمالی کے علاقے کے علاوہ افریقا تک پہنچ گئے ہیں۔
ناٹو کی اس سربراہ کانفرنس سے پہلے فرانس کے صدر میکروں نے رائے ظاہر کی تھی کہ ناٹوکی اب ذہنی موت واقع ہو چکی ہے جو اس نے شام میں اپنے اقدامات سے ثابت کر دی ہے۔ فرانسیسی صدر دراصل چاہتے ہیں کہ اس فوجی اتحاد کے ڈھانچے اور مقاصد پر نظر ثانی کی جائے۔ ان کا ارادہ ہے کہ اس فوجی معاہدہ سے امریکا کا حاوی اثر ختم کیا جائے اور یورپ اپنا الگ دفاعی نظام قائم کرے۔ ناٹو کی سربراہ کانفرنس میں صدر میکروں کی رائے کی گونج سنائی دی جو صدر ٹرمپ کی شدید ناراضی کا باعث بنی۔ ٹرمپ نے میکروں کی اس رائے کو غلیظ اور ہتک آمیز قرار دیا۔ پھر ٹرمپ نے اپنا مذاق اڑانے پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو کھلے عام ’’دوُرخا‘‘ قرار دیا اور انہیں سخت سست سنائیں۔ پھر دنیا کی سپر طاقت کے سربراہ ٹرمپ نے بچکانہ حرکت کی اور منہ پھلائے کانفرنس کے خاتمے سے پہلے ہی واشنگٹن رونہ ہو گئے۔ بات یہ تھی کہ سربراہ کانفرنس سے ایک دن پہلے ٹرمپ نے پچاس منٹ کی طویل پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور پھر فرانسیسی صدر کے ساتھ بھی ایک طویل پریس کانفرنس کی تھی۔ اسی شام کو ملکہ ایلزبتھ نے بکنگھم محل میں ناٹو کے سربراہوں کے اعزاز میں استقبالیہ دیا تھا۔اس استقبالیہ میں برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن، فرانسیسی صدر میکروں، ہالینڈ کے وزیر اعظم، کینڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور ملکہ کی صاحب زادی شہزادی این آپس میں گپ کررہے تھے۔ ٹرمپ کے تاخیر سے آنے پر کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو نے فرانسیسی صدر سے پوچھا کہ کیا ٹرمپ ان ہی پریس کانفرنسوں کی وجہ سے دیر سے آئے ہیں؟ لیکن اس سے پہلے کہ فرانسیسی صدر جواب دیتے، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ ٹرمپ لیٹ اسی وجہ سے ہوئے ہیں کیونکہ وہ چالیس چالیس منٹ کی طویل پریس کانفرنس کرتے ہیں۔
دوسرے روز سربراہ کانفرنس سے پہلے صدر ٹرمپ جرمن چانسلر اینجلامرکل کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے جب ایک صحافی نے ان سے کینیڈین وزیر اعظم کے ریمارکس کے بارے میں پوچھا تو وہ بھڑک اٹھے، کہنے لگے کہ جسٹن ٹروڈو تو دو رخے شخص ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ وہ انہیں بڑا اچھا شخص سمجھتے ہیں لیکن سچ بات یہ ہے کہ میں نے انہیں جھڑکا ہے کہ وہ ناٹو کے ملکوں پر دفاع کے لیے دو فی صد خرچ کرنے کے فیصلہ پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔
پھر سربراہ کانفرنس کے اختتام پر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ وہ پریس کانفرنس نہیں کریں گے۔ یہ ٹویٹ کرتے ہی ٹرمپ، واشنگٹن روانہ ہوگئے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے جب ایک پریس کانفرنس میں اس گپ کے بارے میں پوچھا گیا جس میں ٹرمپ کا مذاق اڑایا جا رہا تھا تو وہ صاف مکر گئے کہ جیسے وہ اس گپ میں شامل نہیں تھے لیکن وہ اس تصویر کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں جس میں وہ میکروں، ٹروڈو اور ہالینڈ کے وزیر اعظم کے ساتھ قہقہے لگا رہے ہیں۔ یہ کس قدر بد تہذیبی تھی کہ بورس جانسن میزبان ہوتے ہوئے اپنے گہرے دوست ٹرمپ کا یوں مذاق اڑا رہے تھے جن سے بریگزٹ کے بعد بورس جانسن کو ایک اہم ترین تجارتی سمجھوتے کے بارے میں مذاکرات کرنے ہیں۔ مغربی رہنما، ناٹو کی اس کانفرنس میں ناٹو کے رکن ممالک کے دفاع اور سلامتی کے اہم مسائل کے بارے میں فیصلے کرنے جمع ہوئے تھے لیکن ان رہنمائوں کی باہمی رقابت اور اختلافات ایک دوسرے کا مذاق اڑا نے کی صورت اختیار کرگئے اور ناٹو کی یہ سربراہ کانفرنس ٹھپ پڑ گئی۔