فیض احمد فیض پر ظفر اقبال کا حملہ

900

 

 

ممتاز شاعر ظفر اقبال نے اپنے حالیہ کالم میں ترقی پسندوں کے امام فیض احمد فیض کی شخصیت اور شاعری پر بھرپور حملہ کیا ہے۔ حملے کا لب ولہجہ بتارہا ہے کہ ظفر اقبال مدتوں سے اس حملے کو روکے ہوئے تھے مگر بالآخر ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہو ہی گیا۔ ظفر اقبال نے فیض کے بارے میں کیا کہا انہی کی زبانی سنیے۔ لکھتے ہیں۔
’’فیض کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، میں خود ان کے مداحین میں شامل ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ فیض کے شعر میں ارتفاع تو ہے، گہرائی نہیں ہے اور اس کے کسی شعر کے ایک سے زیادہ معانی بھی نہیں نکلتے۔ اس پر مجھے حسن نثار کا فون آیا کہ یہ بات تو فیض کی شاعری پر آج تک کسی نے نہیں کہی، میرا جواب تھا کہ آخر کسی کو تو یہ بات کہنی ہی تھی۔ میرا مطلب یہ تھا کہ شاعری کے جدید نظریات کے مطابق، شعر کو کثیر المعانی ہونا چاہیے اور اس سے ابہام کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے، لیکن فیض کی بالخصوص غزل ہمیں ان دونوں آلائشوں سے پاک نظر آتی ہے۔
پھر ہم نے دیکھا ہے کہ فیض کا طرزِ بیان وہی ہے جو تقسیم کے وقت تھا اور اس عرصے میں زبان نے جو نئی کروٹیں لی ہیں یا جس حد تک اپنا فیشن تبدیل کیا ہے، بالخصوص جدید طرزِ احساس کو بھی فیض نے کوئی گھاس نہیں ڈالی، پھر فیض کی غزل میں کوئی ڈائیورشن یا ڈائیورسٹی نظر نہیں آتی اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ساری عمر ایک ہی غزل لکھتے رہے ہیں۔ فیض ایک نظریے کے تحت شعر کہتے تھے اور میری ناقص رائے میں ان کی شاعری کا زیادہ تر حصہ سیاسی اور صحافیانہ ہے، کیوں کہ ان کا تعلق سیاسی نظریے سے بھی تھا اور صحافت کے ساتھ اس طرح کہ وہ ایک عرصے تک پاکستان ٹائمز، امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ یہی صورت حال ایک اور نظریاتی شاعر احمد ندیم قاسمی کی بھی تھی، حالاں کہ شاعر کسی سماج سدھار تنظیم کا رکن یا اخبار کا تجزیہ نگار نہیں ہوتا، لیکن فیض نے کم و بیش یہ دونوں کام کیے۔ چناں چہ ان کی شاعری کا بہت تھوڑا حصہ ایسا رہ جاتا ہے جو خالص شاعری کی ذیل میں آتا ہے اور جس پر ہمیں گزارہ کرنا پڑتا ہے۔
یقینا یہ موضوعات شاعر کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہوتے، لیکن سوال صرف تناسب کا ہے، جب کہ نظریاتی شاعر پہلے نتیجہ نکالتا ہے اور پھر اس کے مطابق نظم تخلیق کرتا ہے اور فیض کمیونسٹ پارٹی کے بھی باقاعدہ رکن تھے اور لینن پرائز انہیں ان کے نظریے کی بنیاد پر دیا گیا، محض شاعری پر نہیں۔ فیض نے سیاسی نظریے ہی کی بنیاد پر گُل و بلبل، باغ و باغباں کے معنی بھی تبدیل کردیے، اس لیے ہمیں غالب کے زندان اور فیض کے زندان و قفس میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ ان استعاروں سے فیض نے اپنے سیاسی نقطہ نظر کے مطابق کام کیا۔ فیض نے جس مظلوم و مقہور طبقے کے لیے شاعری کی فیض کا اس طبقے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ وہ خود ایک مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 21 نومبر 2019ء)
ظفر اقبال نے فیض پر آٹھ دس بڑے بڑے الزامات عائد کیے ہیں ان میں سے بعض الزامات کا تجزیہ آگے آرہا ہے۔ یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ ظفر اقبال فیض پر بڑے بڑے الزامات بھی لگارہے ہیں مگر کالم کے آغاز میں یہ بھی فرما رہے ہیں کہ ’’فیض کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ جب فیض بڑے شاعر ہی نہیں تو پھر ظفر اقبال ان کی اہمیت سے انکار کیوں نہیں کرسکتے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ظفر اقبال فیض کی مبینہ عظمت کا انکار کرنے کے باوجود ان کی ’’شہرت‘‘ کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ یعنی ظفر اقبال کے نزدیک فیض کی ’’اہمیت‘‘ ان کی ’’شاعرانہ عظمت‘‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ ’’شاعرانہ شہرت‘‘ کی وجہ سے ہے۔ اس تناظر میں فیض کے حوالے سے ظفر اقبال کی فکر اور رویے میں ایک گہرا تضاد یا Paradox موجود ہے۔ اس لیے کہ شہرت سے کوئی عظیم نہیں بن جاتا۔ امیتابھ بچن اور مائیکل جیکسن کی کی شہرت فیض کی شہرت سے ہزار گنا زیادہ ہے مگر یہ دونوں شخصیات بہرحال فیض احمد فیض نہیں ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ظفر اقبال خود فیض کی شہرت کے مارے ہوئے ہیں اور اس سے اتنے مرعوب ہیں کہ فیض کی شاعری میں بڑے بڑے عیب نکالنے کے باوجود فرما رہے ہیں کہ فیض کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ظفر اقبال نے فیض پر سب سے بڑا حملہ یہ کہہ کر کیا ہے کہ وہ ایک ’’نظریاتی شاعر‘‘ تھے۔ یعنی وہ ایک نظریے کے تحت شعر کہتے تھے۔ بلاشبہ فیض ایک نظریاتی شاعر تھے لیکن کوئی شاعر نظریاتی ہونے کی وجہ سے چھوٹا نہیں ہوتا۔ نظریے اور ادب کے تعلق پہ بات کرنے کے لیے بعض حقائق کا شعور ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ظفر اقبال کو ان حقائق کی ہوا بھی نہیں لگی۔ نظریے کے سلسلے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ نظریہ چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بڑا بھی۔ چھوٹے نظریے سے چھوٹا ادب اور بڑے نظریے سے بڑا ادب پیدا ہوتا ہے۔ مولانا روم اور اقبال سے بڑا ’’نظریاتی شاعر‘‘ کون ہوگا مگر چوں کہ مولانا اور اقبال کا نظریہ عظیم ہے اس لیے عظیم نظریے نے مولانا اور اقبال اور ان کی شاعری کو بھی عظیم بنادیا ہے۔ فیض کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا نظریہ ہی چھوٹا ہے۔ بیچارہ 75 سال میں اپنی بہاریں دکھا کر فنا ہوگیا۔ اس کے برعکس مولانا روم اور اقبال کا نظریہ چودہ سو سال سے زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا۔ ایسے نظریے سے بڑی فکر اور بڑا ادب جنم نہیں لے گا تو کس نظریے سے لے گا؟ نظریاتی ادب کے بارے میں دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ نظریے کو شاعر اور ادیب کی کھال کی طرح فطری ہونا چاہیے۔ لباس کی طرح اوڑھا ہوا اور مصنوعی نہیں ہونا چاہیے۔ نظریہ جب تک شاعر اور ادیب کی روح کا حصہ نہ بنے اور دل کی دھڑکن میں تبدیل نہ ہو اس وقت تک شاعر یا ادیب بڑا ادب تخلیق نہیں کرسکتے۔ مولانا روم اور اقبال کا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام ان کی روح تھا۔ ان کا قلب تھا۔ ان کا ذہن تھا۔ ان کی نفسیات تھا۔ ان کا جذبہ تھا۔ ان کی تہذیب تھا۔ ان کی تاریخ تھا۔ ان کی تلوار تھا۔ ان کی ڈھال تھا، ان کا علم تھا۔ ان کا عمل تھا۔ فیض کا مسئلہ یہ ہے کہ سوشلزم نہ ان کی روح تھا، نہ قلب تھا، نہ ذہن تھا، نہ تہذیب تھا، نہ تاریخ تھا، نہ جذبہ تھا، نہ تلوار تھا، نہ ڈھال تھا۔ سوشلزم فیض کے لیے صرف ایک ’’فیشن‘‘ یا زیادہ سے زیادہ ایک ’’مطالعہ‘‘ تھا۔ صرف نظریے کے ’’فیشن‘‘ اور صرف نظریے کے مطالعے سے جیسی شاعری ہوسکتی ہے۔ فیض نے ٹھیک ویسی ہی شاعری کی ہے۔ یہ بات تو خود ظفر اقبال نے بھی لکھی ہے کہ فیض کا تعلق ایک مراعات یافتہ طبقے سے تھا۔ ’’معاشی محرومی‘‘ ’’معاشی جبر‘‘ اور ’’ظلم‘‘ ان کا ذاتی، شخصی، انفرادی اور طبقاتی تجربہ نہیں تھا۔ پھولوں کے سیج پر سونے والے کانٹوں کی سیج پر سونے کے تجربے کو جس طرح بیان کریں گے فیض نے بھی ظلم، جبر اور محرومی کے تجربے کو اسی طرح بیان کیا ہے۔ نظریہ جب خون میں حل ہوجاتا ہے تو پھر انسان دو مصرعوں میں دو تہذیبوں کی روح کو بیان کردیتا ہے۔ مولانا روم کا شعر ہے۔
مصلحت دردین ماجنگ و شکوہ
مصلحت در دین عیسیٰؑ غارو کوہ
مولانا فرما رہے ہیں کہ رسول اکرمؐ کے دین یعنی اسلام کی مصلحت یا روح جہاد اور شکوہ ہے۔ اس کے برعکس حضرت عیسیٰؑ کے مذہب یعنی عیسائیت کی روح ترک دنیا یعنی غارو کوہ میں جا کر آباد ہونا ہے۔ اسی طرح مولانا نے صرف دو مصرعوں میں علم کی دو کائناتوں یا دو جہات کو بیان فرما دیا ہے۔ کہتے ہیں۔
علم را بر دل زنی یارے بود
علم را برتن زنی مارے بود
مولانا فرمارہے ہیں کہ تو اگر علم کا اثر دل پر لے گا اسے روحانی ترقی کے لیے استعمال کرے گا تو علم تیرا دوست بن جائے گا اور اگر علم سے تو صرف دنیا کمانے کا کام لے گا تو علم سانپ بن کر تجھے کاٹ لے گا۔ صرف فیض نہیں دنیا کے ایک لاکھ اشتراکی شاعر بھی مل کر ایسے چار مصرعے نہیں لکھ سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو عسکری صاحب نے اقبال کی نظم مسجد قرطبہ کو اردو شاعری کا ’’تاج محل‘‘ قرار دیا ہے۔ اردو کے تمام ترقی پسند شاعروں کی شاعری کا مجموعی تہذیبی، علمی اور شاعرانہ وزن اقبال کی مسجد قرطبہ کے برابر نہیں ہوسکتا۔
نظریے کے سلسلے میں ظفر اقبال کو یہ بات بھی معلوم نہیں کہ مسلمانوں کا تہذیبی مزاج ’’اب تک‘‘ ایسا ہے کہ بڑے سے بڑا سوشلسٹ، سیکولر اور لبرل بھی اپنے ’’انحراف‘‘ یا اپنے ’’انکار‘‘ میں بڑائی اور عظمت پیدا کرکے نہیں دکھا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشلزم، کمیونزم، سیکولر ازم اور لبرل ازم مسلمانوں کے لیے ظاہری اور باطنی دونوں معنوں میں ’’اجنبی خیالات‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں نے گزشتہ 75 سال میں کوئی بڑا اشتراکی یا سیکولر ذہن پیدا نہیں کیا اور نہ مستقبل قریب میں ایسے کسی ذہن کے پیدا ہونے کا کوئی امکان ہے۔
ظفر اقبال کو نظریے کے بارے میں یہ بات بھی معلوم نہیں کہ دنیا میں ایسا کوئی آدمی موجود ہی نہیں جس کا کوئی نظریہ نہ ہو۔ ظفر اقبال کا کیا خیال ہے میر تقی میر اور غالب کا کوئی نظریہ حیات نہیں تھا؟ میر تقی میر کا شعر ہے۔
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
اس شعر کی پشت پر اسلام کا تصور تخلیق کھڑا ہوا ہے۔ غالب کا شعر ہے۔
ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
شعر میں ایک پورا ’’تہذیبی تناظر‘‘ موجود ہے۔ دنیا کے عظیم ترین ناول نگار دوستو وسکی کا بظاہر کوئی نظریہ نہیں تھا مگر اس کا ناول ’’ایڈیٹ‘‘ دوستو وسکی کے مخصوص تصورِ انسان کا بیان ہے۔ ظفر اقبال کہیں تو ان کی شاعری سے ان کا تصور حیات اور تصور انسان دونوں برآمد کرکے دکھائے جاسکتے ہیں۔ یہ اور بات کہ اکثر شاعروں اور ادیبوں کا ذہن اور علم اتنا کم ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے حوالے سے ’’نظریہ سازی‘‘ کرنے کی اہلیت یا زندگی کو Theorizeکرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ بہرحال ہمیں ظفر اقبال کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ فیض کم از کم غزل کی حد تک ایک اوسط درجے کے شاعر ہیں۔ ان کی غزلیہ شاعری عزیز حامد مدنی، سلیم احمد اور خود ظفر اقبال کی غزلیہ شاعری کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتی۔ مدنی صاحب کے 10 شعر ملاحظہ کیجیے۔
جو بت کدے میں تھے وہ صاحبان کشف و کمال
حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
٭٭
پہلے مری وحشت کے یہ انداز بھی کم تھے
پہلے مجھے اندازہ صحرا بھی نہیں تھا
٭٭
مزاج عشق میں بھی ایک امکاں ہے تغیر کا
کچھ اس کی زلف برہم کچھ زمانے کی ہوا برہم
٭٭
تعلقات زمانہ کی اک کڑی کے سوا
کچھ اور یہ تیرا پیمانِ دوستی بھی نہیں
٭٭
کھلا یہ دل پہ کہ تعمیر بام و در ہے فریب
بگولے قالب دیوارو در میں ہوتے ہیں
طلسمِ خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
٭٭
دلوں کی عقدہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں
یہ آدمی کی خواہش کا وقت ہے کہ نہیں
خلل پزیر ہوا ربط مہر و ماہ میں وقت
بتا یہ تجھ سے جدائی کا وقت ہے کہ نہیں
٭٭
سرشت گل ہی میں پنہاں سے سارے نقش و نگار
ہنر یہی تو کف کوزہ گر میں ہوتے ہیں
اب آپ سلیم احمد کے دس شعر ملاحظہ فرمائیے۔
دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہوگئے
اب ذرا نیچے اُترئیے آدمی بن جائیے
اک پتنگے نے یہ اپنے رقص آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے
٭٭
خموشی کے ہیں آنگن اور سناٹے کی دیواریں
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا
٭٭
مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہوگا فائدہ
میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہوجائیں گے
٭٭
غنیمِ وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
٭٭
جانے کسی نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
کشتیوں والے بے خبر بڑھتے رہے بھنور کی سمت
اور میں چیختا رہا تیز ہوا کے شور میں
٭٭
بہت غم سے مکدّر ہو گیا ہوں
میں آئینہ تھا پتھر ہوگیا ہوں
٭٭
محلے والے میرے کارِ بے مصرف پہ ہنستے ہیں
میں بچوں کے لیے گلیوں میں غبارے بناتا ہوں
٭٭
میرے پاس آتے ہیں مجھ سے خوف کھاتے ہیں
میں ہجومِ طفلاں میں سانپ کا تماشا ہوں
اب آپ کی خدمت میں ظفر اقبال کے دس شعر پیش ہیں۔
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تُو نہ ملا
٭٭
اس کی ہر طرزِ تغافل پہ نظر رکھتی ہے
آنکھ ہے دل تو نہیں ساری خبر رکھتی ہے
٭٭
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایہ تھا
٭٭
تُو مُنقّش ہے مری روح کی دیواروں پر
مجھ سے چہرہ نہ چھپا میں تو ترا پردہ ہوں
٭٭
کہیں چھپائے سے چھپتی ہے بے حسی دل کی
ہزار کہتا پھرے مست ہے قلندر ہے
٭٭
جو غم ملا جبیں کی شکن میں چھپا لیا
دل سی گداز چیز کو پتھر بنا لیا
٭٭
آ دیکھ میرے سینے میں ہے دل ہی دل تمام
اور وہ بھی تیرے شور و شغب سے بھرا ہوا
٭٭
کاغذ کے پھول سر پہ سجائے چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا
٭٭
جس طرح جنات گزرے ہوں ابھی اس شہر سے
دور تک ملتی نہیں ہے بوئے آدم زاد بھی
٭٭
آج میں منزل نہیں ہوں راہ کا پھیلائو ہوں
آج ہے میرا سفر اندر سے باہر کی طرف
اب یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ کوئی صاحب فیض کی کلیات سے ایسے شعر نکال کر دکھائیں۔ صرف دس شعر، ہمیں یقین ہے کہ فیض کے دس شعر نہ مدنی صاحب کے دس شعروں کا مقابلہ کرسکیں نہ سلیم احمد اور ظفر اقبال کے دس شعروں کا۔ فیض کی نظمیں ان کی غزلوں سے اچھی ہیں مگر ان کی ساری نظمیں اقبال کی ایک اور ن، م راشد کی دو نظموں کے برابر بھی نہیں ہیں