القاعدہ کیوں قائم کی گئی؟

276

ٍطالبان کی حکومت ہر آگاہ تھی کہ بیرونی دنیا انہیں نا پسند کرتی ہے ۔یہاں تک کہ اکتوبر1999ء سے قبل کی نواز شریف حکومت اور ان کے مابین راہ و رسم اچھی نہ تھی ،چنداں اطمینان و اعتماد نہ تھا۔ پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کے بعد جنرل پرویز مشرف حکمران بن گئے۔ کمال اتا ترک ماڈل اپنانے کا دعویدار بنا۔ طالبان حکومت نے اس تبدیلی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیااور نیک توقعات کا اظہار کیا۔ بہر حال طالبان آگاہ تھے کہ بہت کچھ ان کے حق اور مفاد کے برخلاف ہورہا ہے۔ اسامہ بن لادن کا افغانستان میں قیام ان کے لیے دن بدن سنگین خطرہ بنتا گیا۔ وہ اسامہ بن لادن کی موجودگی کی سنگینی کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ اسامہ کا قضیہ بات چیت کے ذریعے اور اعلیٰ سطح پر کچھ ایسے انداز میں حل ہوکہ اس باب میں ہونے والا فیصلہ اور نتیجے کی ذمے داری و بار،تنہاان کی حکومت پر عائد نہ ہو ۔ سردست وہ اُسامہ کے معاملے کا معقول اور منصفانہ حل چاہتے تھے۔ علی الخصوص مسلمان ممالک ، ان کے صاحب الرائے و حیثیت علماء کی جائز معاونت کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ یقینا اسامہ بن لادن روس کے خلاف افغان جہاد میں عملاً شریک تھے۔ فلاحی و رفاہی خدمات انجام دیں۔ مگرروسی افواج کے نکلنے اور افغان جہادی تنظیموں کے مابین جنگ و اختلافات کے بعد اسامہ بن لادن اپنے ملک سعودی عرب چلے گئے۔ وہ اس خطے میں محفوظ بھی نہ تھے۔ شیخ عبداللہ عظام بھی افغان جہاد میں بڑے متحرک تھے۔فلسطینی نژاد یہ عرب عالم و دانشور اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے ۔شیخ عظام ہی کی وساطت سے اُسامہ بن لادن افغان جہاد سے وابستہ ہو گئے تھے ۔ بعد ازاں 24نومبر1984ء کوشیخ عظام پاکستان کے شہر پشاور میں بچوں سمیت قتل کردیئے گئے۔ غرض اسامہ بن لادن اپنے ملک سعودی عرب میں مقیم ہوئے ۔ 1990ء میں عراقی افواج کے کویت میں داخل ہونے کے بعد امریکا خلیج میں جادھمکا، عراق پر حملہ کیا۔ عراق کے صدرصدام حسین کی جارحیت کا بہانہ لے کر امریکا نے سعودی عربیہ اور خلیجی ممالک میں آسانی سے اپنی فوجیں بٹھا دیں ۔ان کے سمندروں میں جنگی بیڑے لنگر انداز کر دیے ۔ اسامہ بن لادن امریکی فوجی نفوذ اور سرایت کے خلاف تھے۔ چناں چہ مبینہ طور پر القاعدہ جیسی تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی ۔جو خطے میں امریکی دفاعی و سیاسی مفادات کے خلاف نمایاں ہوئی۔ چناں چہ اسامہ بن لادن معتوب ٹھیرے۔ آل سعود کی حکومت نے انہیں ملک سے نکال دیا۔جس کے بعد اس نے سوڈان میں سکونت اختیار کرلی ۔ القاعدہ کے اہداف میں عرب ممالک بالعموم مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد قائم کرنا تھا۔ تاکہ ان ممالک میں سامراجی اثر و نفوذ باقی نہ رہے۔ سوڈان امریکا کے آگے بے بس تھا۔ وہاں بھی اسامہ کے لیے عرصہ حیات تنگ ہوا ۔واشنگٹن نے سوڈانی حکومت سے اسامہ کو ملک بدر کرنے کا کہا۔ یہ صورتحال غور طلب ہے ۔ اول یہ کہ کیوں سعودی حکومت نے اسامہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا؟۔ وہاں ریاست و حکومت کی پوری رٹ قائم تھی۔ اسامہ کو اپنے ملک کے اندر ہی نظر بند کیا جاتا، اس کے بیرون ملک سفر ،سیاسی و سماجی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جاتی۔ گویا ان پر ہمہ وقت نگاہ رکھی جاتی۔ اس طرح وہ پس منظر میں چلے جاتے۔ سعودی اور امریکی مفادات کو زک پہنچتا، نہ القاعدہ تنظیم وجود میں آتی۔ دوئم، امریکا نے انہیں سوڈان کے اندر گرفتار کیوں نہ کیا؟ اُن کا حراست میں لیا جانا امریکا کے لیے مشکل نہ تھا۔ تیسری خیانت افغانستان میں برہان الدین ربانی کی حکومت نے کی ۔جس نے اسامہ بن لادن کو افغانستان منتقلی کی دعوت دی۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ عالمی طاقت امریکا اس شخص پر غضبناک ہے۔اُن پر 1993ء میں امریکا کے اندر بم دھماکے کا الزام تھا۔ ربانی پر اپنی اور اپنی حکومت کی حیثیت بھی واضح تھی ۔لیکن اصل مسئلہ یہ تھاکہ ان سب کی نظریں اسامہ بن لادن کی دولت پر لگی ہوئی تھیں۔ یہ خیانت برہان الدین ربانی، پروفیسر عبدالرب رسول سیاف اور احمد شاہ مسعود کے باہمی اشتراک سے ہوئی۔ چناں چہ برہان الدین ربانی کی حکومت نے اسامہ بن لادن کو افغان پاسپورٹ جاری کیا۔اسطرح وہ بڑی رازداری سے افغانستان پہنچ گئے، اور پکتیاکے علاقوں میں مقیم ہوگئے۔ یہ لوگ مخلص ہوتے تو اسامہ کو افغانستان کے شمال میں سکونت اختیار کرنے کا کہتے ،جہاں امن و امان افغانستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت بہتر تھا۔ چناں چہ عبدالرب رسول سیاف نے اسامہ سے مالی مفادات کا تقاضا کیا۔ اسامہ بن لادن کی مالی حیثیت اب بہت کمزور ہوچکی تھی۔ انہوں نے سیاف کو عذر پیش کیا کہ ان کی اب پہلی والی حیثیت نہیں ہے۔ عبدالرب رسول سیاف سعودی عرب کے فنڈز پر زندہ تھے۔ اور اب بھی یہی صورتحال ہے۔ جس کے بعد ان تین افغان رہنمائوں نے اسامہ کی امریکا کو حوالگی کے منصوبوں پر کام شروع کیا۔ تاہم یہ اپنے منصوبے و ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ جب ستمبر1996ء میں جلال آباد اور اس سے متصل دوسرے صوبے و علاقے طالبان کے کنٹرول میں آگئے تو اسامہ بن لادن نے طالبان سے پناہ کی درخواست کی ۔چناں چہ طالبان نے غور وسوچ کے بعد انہیں پناہ دیدی۔
سال1998ء میں اسامہ بن لادن نے قندھار منتقلی کی خواہش کا اظہار کیا۔ چناں چہ ملا محمد عمر مرحوم نے انہیں اجازت دیدی۔ وہ خاندان کے ہمراہ کندھار منتقل ہوگئے۔ ملا محمد عمر کے ترجمان ملا عبدالحئی مطمئن کہتے ہیں کہ اُسامہ کے پاس مالی ذرائع نہ تھے۔ ان کی گاڑیوں کے لیے پٹرول و ڈیزل بھی امارت اسلامیہ فراہم کرتی۔ اُسامہ نے سیاسی لحاظ سے خود کو نمایاں رکھا تھا ۔باوجود اس کے کہ دنیا کے اندر ان کا امیج ناپسندیدہ بن چکا تھا ۔ انہیں یقینا اس بات کا ادراک بھی تھا ،کہ ا ن کی فعالیت امارت اسلامیہ کے لیے مشکل بنتی جارہی ہیے۔ لغزشیں اور کوتاہیاں امارت اسلامیہ سے بھی ہوئیں۔ ان کی جانب سے اُسامہ کی سیاسی و دوسری سرگرمیوں پر قطعی پابندی لگنی چاہیے تھی۔ ان ہی ایام میں یعنی7اگست1998ء کو کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کے واقعات پیش آئے۔ اگرچہ طالبان کہتے ہیں کہ انہوںنے اُسامہ کوسرگر میاں نہ کرنے اور سعودی حکومت کے خلاف سیاسی گفتگو نہ کرنے کا بھی کہا تھا۔ ان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھی گئی تھی۔مگر حالات سے ظاہر ہوا کہ طالبان اس ضمن میں خاطر خواہ عمل درآمد نہ کرا سکے۔کیوں کہ اُسامہ سیاسی گفتو کرتے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے بھی بات چیت کر لیتے ۔ 27اگست 1998ء کو امریکا نے خلیج کے پانیوں سے افغانستان پر کروز میزائل داغے ۔ گولے خوست کے مختلف مقامات پر جا لگے ۔ ایک دینی مدرسے پر گولہ گرنے کے نتیجے میں اکیس طلبہ جاں بحق ہوگئے۔ جلال آباد اور قندھار میں بھی گولے گرے ۔ بیک وقت سوڈان کو بھی نشانہ بنایا گیا وہاں ادویات تیار کرنے کی فیکٹری تباہ کی گئی ۔الزام لگایا کہ فیکٹری میں کیمیائی ہتھیار بنائے جاتے ہیں۔ لیکن امریکہ اپنے اس الزام میں دروغ گو ثابت ہوا۔ سوڈان کی حکومت نے اقوام متحدہ سے معائنہ کار بھیجنے کا مطالبہ کیا تاکہ دنیا پراصل حقائق واضح ہوں، مگر ان کی شنوائی نہ ہوئی ۔ کروز میزائل بلوچستان کے علاقے چاغی کے صحرامیں بھی گرے تھے۔ برہان الدین ربانی نے افغانستان پر ان حملوں کی حمایت کی۔ فروری 1999ء میں افریقی ممالک کے اندر دو حملے بھی القاعدہ یا اسامہ سے منسوب ہوئے۔
12اکتوبر2000ء کو یمن میں لنگر انداز امریکی فوجی بیڑے پر حملے کا الزام بھی اُسامہ پر لگا۔ اس حملے میں سات امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔اسطرح اُسامہ کی حوالگی اور افغانستان بدری کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ واشنگٹن کے سفارتی اور جاسوسی کے ادارے متحرک ہوگئے۔ سعودی عرب کی پریشانی مزید بڑھ گئی۔ حالاں کہ اس سب کی وجہ سعودی حکومت تھی۔ چناں چہ سعودی حکومت نے بھی طالبان حکومت سے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ یقینی طور پاکستان کی حکومت اورعسکری حکام اس پوری صورت حال سے باخبر و مضطرب تھے۔ امارت اسلامیہ، اُسامہ کے قضیے کا منطقی حل چاہتی تھی۔ طالبان یہ بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں سے اٹھا کر مسلم ممالک اور وہاں کے معتبر و معروف علماء کے سپرد کرنا چاہتے تھے ۔ گویا اس مرحلے پر بھی افغانستان کی حکومت (امارت اسلامیہ)نے ثبوت طلب کرلیے جو قانونی اور شواہد کا معیار پورا کرتے ہوں۔ ثبوت تب بھی نہ د یے گئے۔ افریقہ کے واقعات سے متعلق امریکا نے طالبان کو سی این این کی ایک رپورٹ شواہد کے طور پر بھیجی۔ سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف ترکی الفیصل خصوصی طیارے میں قندھار پہنچ گئے۔ پاکستان میں متعین سعودی سفیر بھی ساتھ تھے۔ کہتے ہیں کہ طیارے میں لوہے کا پنجرہ بھی لایا گیا تھا۔ ترکی الفٖیصل بڑے تکبرو رعونت کے ساتھ گئے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جونہی وہ اُسامہ کی حوالگی زبان پر لا ئیں گے ،تو ملا محمدعمر اسی آن اُسامہ ہاتھ بند ھے حوالے کردیں گے۔ مگر ملا محمد عمر نے ان کی رعونت اور زعم کو پرکاہ برابر اہمیت نہ دی۔ملا محمد عمر نے انہیں کہا کہ اس حوالے سے سعودی عرب ،سعودی علماء پر مشتمل کمیٹی بنائے ،جو افغان علماء سے ملکر کوئی حل نکالے۔ غرض ماحول تلخ و ناخوشگوار بن گیا۔ ملا محمد عمر ترکی الفیصل پر برہم ہوئے۔ کہا کہ سعودی عرب اسلام کا مرکز ہے اور آپ کے اسلاف نے دنیا ئے اسلام کو حمیت و غیرت کا درس دیا ہے۔ ملا محمد عمر نے ان سے یہ بھی کہا کہ امریکیوں پر حملے افریقہ میں ہوئے ہیں ، دشمن امریکا کا ہے اور حوالگی کا مطالبہ سعودی کررہے ہیں ۔ چناں چہ ترکی الفیصل غصے سے لال پیلے اُٹھ کر چلے گئے اور ملا محمد عمر اپنی چادر اٹھا کر اپنے کمرے میں داخل ہوئے ۔ اگلے دن سعودی حکومت نے ریاض میں متعین افغان سفیر مولوی شہاب الدین کو نکال دیا۔ گویا مُصر تھے کہ بہر صورت اسامہ بن لادن ان کے حوالے کردیا جائے۔ بہر حال افغان حکومت کئی حوالوں سے غافل رہی۔ اگر امارت اسلامیہ نے اسامہ بن لادن کو امریکا اور سعودی عرب پر تنقید اور سیاسی سرگرمیاں نہ کرنے کی ہدایت کی تھی تو ان پر ہمہ وقت نگاہ رکھنی چاہیے تھی۔ طالبان تسلیم کرتے ہیں کہ اسامہ بن لادن ذرائع ابلاغ پر گفتگو کرتے ، امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے۔ بن لادن مہمان و پناہ گزین کی حیثیت سے افغانستان میں مقیم تھے ۔ مگراس کے بر عکس وہ افغانستان کے قوانین کو پامال کرتے تھے۔ لہٰذا طالبان حکومت پر لازم تھا کہ انہیں بہر حال اپنے قوانین کے احترام کا پابند کر تی ۔ ان کی نقل و حرکت پر کڑ ی نگاہ رکھی جاتی۔ غرض سعودی عرب طالبان مخالف بن گیا۔ پاکستان کا رویہ بھی پہلے جیسا نہ رہا۔
(جاری ہے)