برطانیہ کے تاریخی عام انتخابات

188

چھ ہفتوں کی ہنگامہ خیز انتخابی مہم کے بعد اب چند روز میں برطانیہ میں عام انتخابات ہونے والے ہیں جو ہر لحاظ اور زاویے سے تاریخی ثابت ہوں گے۔ وزیر اعظم بورس جانسن کے نزدیک جن کا تمام تر زور بریگزٹ پر رہا ہے، یہ انتخابات ان کی جیت کی صورت میں برطانیہ کی یورپ سے آزادی کی نوید ثابت ہوں گے کہ وہ اپنی اکثریت کی بنیاد پر اگلے سال اکتیس جنوری تک یورپ کے بندھنوں سے آزاد ہو جائیں گے۔ ٹوری پارٹی کی حریف جماعت لیبر پارٹی بھی ان انتخابات کو تاریخی سمجھتی ہے کہ یہ پوری ایک نسل کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوں گے اور پچھلے دس برس سے ملک پر قدامت پسند پارٹی کا جو تسلط ہے وہ لیبر پارٹی کی جیت پر ختم ہوجائے گا، کیونکہ انتخابی مہم کے دوران لیبر پارٹی نے تمام تر زور، ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کے خاتمے، نیشنل ہیلتھ سروس کو امریکا کی نجی کمپنیوں سے بچانے اور پانی، گیس، بجلی اور ریلوے کو دوبارہ قومی ملکیت میں لینے پر دیا ہے۔ لیکن برطانیہ میں بھی اس وقت امریکی عوام کی طرح ٹرمپ کی سیاست کے انداز کا جنون طاری ہے اس لیے کوئی تعجب نہیں کہ پچھلے پانچ ہفتوں کی مہم کے بعد بھی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بورس جانسن کی ٹوری پارٹی کو مقبولیت کے میدان میں اپنی حریف لیبر پارٹی سے سبقت حاصل ہے۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل کی بھر پور مدد اور اعانت سے برطانیہ کی یہودی آبادی نے لیبر سربراہ جیریمی کوربن کو یہودیوں سے نفرت کے الزام کے دام میں ایسا جکڑا ہے کہ خود لیبر پارٹی کے بہت سے رہنمائوں کو اپنی جیت کے بارے میں شک ہے۔ جب سے جیریمی کوربن لیبر پارٹی کے سربراہ منتخب ہوئے ہیں اسرائیل نواز لابی نے ان کے خلاف بڑی منظم مہم شروع کی ہے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کی آزادی اور ان کے حقوق کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور اسرائیل کو برطانیہ کی اسلحے کی فراہمی روکنے کا استقامت کے ساتھ پر زور مطالبہ کیا ہے۔ ٹوری پارٹی نے بھی اپنی صفوں میں اسلام دشمنی چھپانے کے لیے لیبر پارٹی میں اور خاص طور پر جیریمی کوربن کے خلاف یہودیوں سے منافرت کے الزام کو بھڑکایا ہے۔ خود ٹوری پارٹی کی سابق وزیر اور سابق چیر پرسن سعیدہ وارثی نے پچھلے دنوں ٹوری پارٹی میں اسلام دشمنی اور نسل پرستی پر سخت احتجاج کیا تھا جس کے جواب میں بورس جانسن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹوری پارٹی میں اسلام دشمنی کے رجحان کی تحقیقات کرائیں گے لیکن عملی طور پر انہوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ بورس جانسن کے خلاف جھوٹ اور جھوٹے وعدوں کے داغوں کی جو طویل فہرست ہے اس میں ایک کا اور اضافہ ہوا ہے۔
بلا شبہ بارہ دسمبر کے عام انتخابات اس لحاظ سے تاریخی ثابت ہوں گے کہ اگر بورس جانسن جنہیں وزریر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے صرف پانچ ماہ ہوئے ہیں اگر جیت گئے تو پہلی بار ملک کا ایسا وزیر اعظم منتخب ہوگا جو عادی دروغ گو مشہور ہے، جو اسلام دشمن اور نسل پرست تصور کیا جاتا ہے، اور جو صدر ٹرمپ سے اپنی گہری دوستی کی خاطر برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروس کے نظام کو امریکا کی نجی کمپنیوں کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتا ہے۔ یہ انتخابات اس لحاظ سے بھی تاریخی ثابت ہوں گے کہ امریکا کے ساتھ ساتھ روس بھی ان انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے لیکن انتخابات کی وجہ سے برطانوی انٹیلی جنس کی وہ رپورٹ شائع نہیں کی گئی کہ یورپی یونین کو زک پہنچانے کے لیے روس نے 2016 میں یورپ سے برطانیہ کی علٰیحدگی کے بارے میں ریفرنڈم میں بڑے پیمانے پر مداخلت کی تھی اور روس کی طرف سے برطانیہ میں مال دار روسیوں نے بریگزٹ کی مہم میں مالی امداد دی تھی۔ روس کا اصل مقصد یورپ کے اتحاد کو توڑنا ہے اور اس کا خیال ہے کہ برطانیہ کی یورپ سے علٰیحدگی کی وجہ سے یورپ کے اتحاد کو زک پہنچے گی۔ اب بھی روس چاہتا ہے کہ بور س جانسن انتخابات میں کامیاب ہوں اور بریگزٹ کا عمل مکمل ہو اور یورپی اتحاد پارہ پارہ ہو۔ اس سلسلے میں امریکا کا بھی مفاد روس سے مشترکہ ہے اور امریکا بھی چاہتا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین سے یکسر ناتا توڑ لے اور اس مقصد کے لیے بورس جانسن کی جیت لازمی ہے۔
روس، امریکا اور اسرائیل کے کاوشوں کے باوجود اگر ناگہانی، لیبر پارٹی انتخابات جیت گئی تو اس لحاظ سے یہ انتخابات یقینی طور پر تاریخی ثابت ہوں گے۔ کیونکہ لیبر پارٹی دس سال سے زیادہ عرصہ تک اقتدار سے محروم رہنے کے بعد ملک کی حکمران ہوگی۔ لیبر پارٹی کی جیت کی صورت میں بورس جانسن کی بریگزٹ کی خواہش دم توڑ دے گی کیونکہ لیبر پارٹی یہ پیمان کر چکی ہے کہ وہ انتخابات جیتنے کے بعد چھ ماہ کے دوران، یورپ سے علٰیحدگی کے بارے میں یورپی یونین سے ایسا سمجھوتا کرے گی کہ یورپ سے اقتصادی تعلقات برقرار رہیں اور جو سمجھوتا بھی طے پائے، اس پر عوام کی منظوری حاصل کرنے کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے گا۔
بلاشبہ بارہ دسمبر کے عام انتخابات جہاں اگلی کئی دہایوں تک کے لیے برطانیہ کی سیاست کی سمت متعین کریں گے وہاں اس لحاظ سے بھی تاریخی ہوں گے کہ یہ انتخابات ملک کے اتحاد کے لیے بھی فیصلہ کن ہوں گے۔ اسکاٹ لینڈ کے عوام کی اکثریت یورپی یونین سے علٰیحدگی کے سخت خلاف ہے اور ان انتخابات میں جو بھی فیصلہ ہو، اسکاٹ لینڈ کے عوام آزادی کے لیے دوسرے ریفرنڈم کی تحریک چلائیں گے۔ ادھر شمالی آئر لینڈ کے عوام بھی بریگزٹ میں آئر لینڈ کی سرحدوں پر پابندیوں کے سخت خلاف ہیں اور ممکن ہے کہ یہ ناراضی متحدہ آئرلینڈ کی تحریک کی صورت اختیار کر جائے۔ ادھر ویلز کی قوم پرست جماعت پلے کیمرو بھی برطانیہ سے آزادی کی طرف مائل ہے۔ اس صورت میں برطانیہ کا اتحاد خطرہ میں نظر آتا ہے۔
برطانیہ کی تیسری بڑی پارٹی لبرل ڈیموکریٹس جو دس سال قبل ٹوری پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہونے اور ٹوری پارٹی کی غیر مقبول پالیسیوں کی حمایت کی وجہ سے سیاسی طور پر راندۂ درگاہ رہی ہے انتخابات کی مہم میں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہی ہے۔ اس کا تمام تر زور بریگزٹ کی مخالفت اور یورپ میں شامل رہنے پر تھا۔ اس پارٹی کی نئی قائد جوسمون نے پارٹی کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو بڑی پارٹیوں کے بیچ میں کچل گئی ہیں۔ بارہ دسمبر کے عام انتخابات میں اب تین میں سے ایک نتیجہ سامنے آنے کا امکان ہے۔ یا تو ٹوری پارٹی کی جیت ہوگی اور اسے اکثریت حاصل ہوگی جس کی وجہ سے ملک میں بریگزٹ کا بحران اور الجھ جائے گا یا پھر نتیجہ معلق پارلیمنٹ کی صورت میں سامنے آئے گا۔ یہ صورت بھی ملک میں نئے سیاسی طوفان اور تعطل کا باعث بنے گی یا پھر لیبر پارٹی اکثریت حاصل کر لے گی اور جیریمی کوربن وزارت عظمیٰ پر فائز ہوں گے لیکن خیال ہے کہ وہ ملکی اور امریکا، روس اور اسرائیل کے شدید دبائو کی وجہ سے پانچ سال سے زیادہ حکومت نہیں کر پائیں گے۔