عُجلت پسندی

280

قوموں، ملّتوں اور ملکوں کی قیادت کا اہل بننے کے لیے دانش مندی، حِلم وبردباری اور تدبُّر ازحد ضروری ہے، تدبُّر کے معنی ہیں: ’’کوئی بات کرنے سے پہلے، کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اور کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اُس کے عواقب اور اس پر مرتّب ہونے والے نتائج یعنی Subsequences پر غور کرنا‘‘۔ ابوالعباس المبرّد نے ’’الکامل‘‘ کے ’’بَابُ الْخَوارِج‘‘ کے شروع ہی میں لکھا ہے: ’’خوارج نے قبیلہ اَزد کے عبداللہ بن وہب راسبی کی بیعت کا ارادہ کیا، کیونکہ وہ صاحبِ فہم، صائِبُ الرَّائے، عمدہ خطیب اور پیکرِ شجاعت تھا، اُس نے بیعت لینے سے انکار کیا اور کہا: کسی اور کو رہنما بنائو، مگر وہ اُس کی ذاتی خصوصیات کی بنا پر کسی اور کو رہنما بنانے پر تیار نہ ہوئے، تو اس نے کہا: حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے شب بھر اپنی اس رائے کے عواقب ونتائج پر غور کرو، وہ کہا کرتا تھا: ہم ایسی رائے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں جس پر بعد میں پچھتانا پڑے‘‘، عربی شاعر جریر نے کہا ہے:
فَلَا تَتَّقُوْنَ الشَّرَّ حَتّٰی یُصِیْبَکُمْ
وَلَا تَعْرِفُوْنَ الْأَمْرَ إِلَّا تَدَبُّرًا
ترجمہ: ’’پس تم برائی سے بچنے کی تدبیر نہیں کرتے حتیٰ کہ وہ تمہیں آگھیرتی ہے اور معاملے کی حقیقت تم پر آشکار نہیں ہوتی مگر وقت گزرنے کے بعد‘‘۔ ظاہر ہے وقت گزرنے کے بعد ندامت اور پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے ہماری قیادت یا سیاسی اثاثہ عاقبت اندیشی، بصیرت، تدبُّر اور حِلم وبردباری کی قائدانہ خصوصیات سے محروم ہے اوراس کے مظاہر ہم روز میڈیا پر دیکھتے ہیں۔ میڈیا سیاسی قائدین کو آئینہ دکھاتا رہتا ہے کہ کل اُن کا موقف کیا تھا اور آج کیا ہے، اُن کے تضادات کو میڈیا وڈیو ریکارڈ کی صورت میں دکھاتا رہتا ہے کہ کسی کو انکار کی مجال نہ رہے، مگر اُن میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں ہوتی کہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں، بلکہ وہ Self Righteousness یعنی اِصابتِ ذات یا برخود راستی کے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں کہ جو ہم کہہ رہے ہیں یا جو ہمارا موقف ہے، بس وہی درست ہے، اس کے مقابل جو بھی ہے وہ غلط ہے، اسی کو ’’عُجبِ نفس‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ دوسروں کا احتساب تو آسان ہے، اپنا احتساب بے حد مشکل، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بلکہ انسان اپنے آپ پرخود آگاہ ہے، خواہ وہ (اپنی ناراستی) کے لیے عذر تراشتا رہے، (القیامہ: 14-15)‘‘۔
اگر ہر شخص احتساب کا آغاز اپنی ذات سے کرے تو اُس کے اثرات مثبت ہوتے ہیں، پھر جب وہ دوسروں کی گرفت کرتا ہے تو اس کی اخلاقی پوزیشن برتر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب انسان دوسروں کا تعاقب تو جاری رکھے اور جن خرابیوں پر وہ دوسروں کی گرفت کرتا ہے، اس کے گرد وپیش میں وہی خرابیاں نشوونما پاتی رہیں، تو اس کی اخلاقی پوزیشن فروتر ہوتی ہے اور اس کا کوئی مثبت اثر مرتب نہیں ہوتا، بہادر شاہ ظفر نے کہا ہے:
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
سیدنا عمر کا فرمان ہے: ’’قبل اس کے کہ تمہارا احتساب کیا جائے، تم خود اپنا احتساب کرو، قبل اس کے کہ تمہیں میزانِ عمل میں تولا جائے، (اپنے خیر وشر کو) خود اپنے (ضمیرکے) میزان میں تولو، کیونکہ کل کے حساب سے آج کی خود احتسابی تمہارے لیے آسان ہوگی اور جس دن تمہیں (حساب کے لیے) پیش کیا جائے گا اور کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہے گی، اس بڑی پیشی کے لیے عمدگی سے اپنی تیاری کرو، (سنن ترمذی)‘‘۔ میمون بن مہران نے کہا: ’’مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ مجھ سے کب ناراض ہوتا ہے، آپ سے پوچھا گیا: وہ کیسے، آپ نے فرمایا: جب میرے ماتحت میری نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو مجھے اندازا ہوتا ہے کہ شاید مجھ سے اللہ تعالیٰ کی کوئی نافرمانی ہوگئی ہے‘‘۔
اس نفسیاتی کمزوری کا سبب انسان کی فطرت میں عُجلت پسندی ہے، وہ فوری فائدہ چاہتا ہے، غور وفکر اور تدبُّر کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتا، اپنے قول وفعل اور فیصلوں کے نتائج پر غور کرنے کی اُسے فرصت نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (۱) ’’اور انسان بڑا جلد باز ہے، (بنی اسرائیل: 11)، (۲) ’’انسان کو جلد باز پیدا کیا گیا ہے، میں عن قریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھائوں گا، سو تم مجھ سے (نشانیاںدکھانے کی) جلدی نہ کرو، (الانبیاء: 37)‘‘۔ (3): ’’بیشک انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے، جب اسے برائی پہنچتی ہے تو گھبرا جاتا ہے اور جب بھلائی پہنچتی ہے تو (اس کے فیضان کو) روک لیتا ہے، (المعارج: 19-21)‘‘۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: معاملات میں ٹھیرائو (تدبُّر) اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے، (سنن ترمذی)‘‘۔ نبی ؐ نے قبیلہ عبدالقیس کے رئیس مُنذِر بن عائذ سے فرمایا: ’’تمہاری دو خصلتیں اللہ کو پسند ہیں: بردباری اور حُسنِ تدبر، (سنن ترمذی)‘‘۔ جلد بازی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی ناپسندیدہ خصلت ہے کہ یہ دعا کی قبولیت میں بھی رکاوٹ بن جاتی ہے، نبی ؐ نے فرمایا: ’’گناہ اور قطع رحمی کے سوا (دوسرے جائز امور میں) بندے کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلد بازی نہ کرے، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! دعا میں جلد بازی کیا ہے، آپ ؐ نے فرمایا: بندہ کہے: میں مانگتا رہا میں مانگتا رہا، لیکن لگتا ہے کہ میری دعا قبول ہی نہیں ہوگی، پھر وہ تھک ہار جاتا ہے اور دعا چھوڑ دیتا ہے، (صحیح مسلم)‘‘۔ پس قبولیت ِ دعا میں یہ جلد بازی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی کا سبب بن جاتی ہے، اسی طرح جلد بازی میں بعض اوقات انسان ایسے ناروا کام کرلیتا ہے کہ بعد میں احساس ہونے پر بھی اُن کی تلافی نہیں ہوسکتی، حدیث پاک میں ہے:
’’اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے ہمیں قبیلۂ جُہینہ کی ذیلی شاخ حُرَقَہ کی طرف بھیجا، پس ہم علی الصباح اُن پر حملہ آور ہوئے اور انہیں شکست دے دی، (جنگ کے دوران) میرا اور ایک انصاری شخص کا اُن کے ایک آدمی سے مقابلہ ہوا، جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ (یعنی کلمۂ اسلام) پڑھ لیا، اس پر انصاری نے اُس سے اپنا ہاتھ روک لیا اور میں نے اُسے نیزا گھونپا یہاں تک کہ اُسے قتل کردیا۔ اسامہ بیان کرتے ہیں: جب ہم واپس مدینہ منورہ آئے تو نبی ؐ تک یہ خبر پہنچ چکی تھی، آپ ؐ نے فرمایا: اسامہ! تم نے (کلمۂ اسلام یعنی) لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھنے کے بعد اُسے قتل کردیا، میں نے عرض کی: یارسول اللہ! اس نے کلمۂ اسلام تو جان بچانے کے لیے پڑھا تھا، آپ ؐ بار بار فرماتے رہے: تم نے کلمۂ اسلام پڑھنے کے بعد اُسے قتل کردیا، (اسامہ بیان کرتے ہیں: مجھے اتنی ندامت ہوئی) حتیٰ کہ میں نے آرزو کی: کاش کہ میں نے اس سے پہلے اسلام قبول نہ کیا ہوتا، (صحیح مسلم)‘‘۔ یعنی حالت ِ اسلام میں مجھ سے یہ غلطی سرزد نہ ہوئی ہوتی۔ دوسری روایت میں ان کلمات کا اضافہ ہے: ’’تم نے اُس کے دل کو چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ تمہیں معلوم ہوتا کہ اس نے دل سے کلمہ پڑھا ہے یا محض جان بچانے کے لیے پڑھا ہے، کل قیامت کے دن جب وہ (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغاثہ کرے گا اور) ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کی حجت لے کر آئے گاتو تم کیا جواب دو گے،(مسند احمد)‘‘۔
مقداد بن عمرو کندی بنو زہرہ کے حلیف تھے اور رسول اللہ ؐ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک تھے، انہوں نے رسول اللہ ؐ سے عرض کی: یارسول اللہ! بتائیے! اگر میرا کسی کافر شخص سے سامنا ہو اور ہم ایک دوسرے سے لڑ پڑیں اور وہ تلوار کی ضرب سے میرا ایک ہاتھ کاٹ دے، پھر (میرے پلٹ کر حملہ کرنے سے پہلے) وہ کسی درخت کی اوٹ میں مجھ سے پناہ لے لے اور کہے: میں نے اسلام قبول کیا، یارسول اللہ! کیا میں اسلام قبول کرنے کے بعد اُسے قتل کرڈالوں، آپ ؐ نے فرمایا: تم اسے قتل نہ کرو، انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! اُس نے تو میرا ایک ہاتھ کاٹا اور پھر اسلام قبول کیا، رسول اللہ ؐ نے فرمایا: (اسلام قبول کرنے کے بعد) تم اسے قتل نہ کرو، اگر اب تم نے اسے قتل کیا، تو جس طرح اس کے قتل کیے جانے سے پہلے تمہاری جان محفوظ تھی (اور وہ مُباحُ الدم تھا)، اب (اسلام قبول کرنے کے بعد ) اُس کو جان کی حرمت حاصل ہوجائے گی اور اگر تم نے اُسے قتل کردیا تو تم مُباح الدم ہوجائو گے (اور تمہاری جان کی حرمت قائم نہیں رہے گی)، (صحیح البخاری)‘‘۔
سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ؐ نے مجھ سے فرمایا: عائشہ! اللہ رفیق ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر اتنا عطا فرماتا ہے جو سختی اوردیگر خصلتوں پر عطا نہیں فرماتا، (صحیح مسلم)‘‘۔ حرملہ بیان کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے رفیق ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عجلت پسند نہیں ہے، عجلت پسند وہ ہوتا ہے جو موت سے ڈرتا ہے، پس جب تمام چیزیں اس کے قبضے اور مِلک میں ہیں، تواُن میں عجلت نہیں فرماتا، (الاسماء والصفات للبیہقی)‘‘۔ اسلام متانت ووقار اور ٹھیرائو کو اس قدر پسند کرتا ہے کہ اگرچہ نمازِ جمعہ کے لیے اُس نے سعی کا حکم دیا ہے، لیکن دوڑ کر نماز کی طرف جانے سے منع فرمایا ہے، (صحیح ابن خزیمہ)‘‘۔
پس معاملات انفرادی ہوں یا قومی، عُجلت اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے، نرم روی، نرم گفتاری، عاقبت اندیشی اور تدبُّر کی خصلتیں اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہیں۔ اسی طرح ایسے فیصلوں میں برکت ہوتی ہے اور انہیں اللہ کی تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے جو اتفاقِ رائے سے کیے جائیں، رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے: ’’میری امت کو اللہ تعالیٰ گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا، اللہ تعالیٰ کا دستِ تائید جماعت پر ہوتا ہے (یعنی وہ گمراہی سے محفوظ رہیں گے) اور جو (عقیدے یا قول وفعل میں) جماعت سے الگ ہوا، وہ جہنم میں جاگرا، (ترمذی)‘‘۔
معاملات میں قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے ذہنی، فکری اور عملی مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، دوسروں کی جائز باتوں کو ماننا پڑتا ہے، عُجب واستکبار کی عادت کو ترک کر کے تواضع اور انکسار سے کام لینا پڑتا ہے اور یہی روش ہمارے ہاں مفقود ہے۔
نبی ؐ نے فرمایا: ’’اچھے اخلاق، بردباری اور میانہ روی نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے، (ترمذی)‘‘۔ ایک حدیث میں ہے: ’’لوگوں کی تعریف اور مذمت میں جلدی نہ کرو، کیونکہ ایک شخص آج تمہیں اچھا لگتا ہے اور کل وہی تمہیں برا لگنے لگتا ہے اور ایک شخص آج برا لگتا ہے اور کل وہ پسندیدہ بن جاتا ہے، پس تم بردباری سے کام لو، تم نیکی میں کچھ پیچھے رہ جائو، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم برائی میں حد سے گزر جائو، (مصنف ابن ابی شیبہ)‘‘۔