وکلا یا دہشت گرد؟

282

گزشتہ بدھ کو لاہور میں وکلا کے جتھے نے جو کچھ کیا وہ محض غنڈہ گردی نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ کالے کوٹوں میں ملبوس یہ دہشت گرد اپنے کیے پر شرمندہ نہیں ہیں، الٹے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بار کے ایک عہدے دار عمر بلوچ تو جمعرات کو بھی اپنی مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے دھمکیاں دے رہے تھے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کو بھی دھمکیاں دیں جو ان کے خیال میں یکطرفہ تصویر دکھا رہے تھے۔ لیکن وکلا کی یہ مکروہ تصویریں تو پورے ملک ہی نہیں پوری دنیا نے دیکھی ہیں۔ وکلا اپنے آپ کو قانون دان اور قانون کا محافظ کہتے ہیں لیکن ان کا عمل قانون شکنوں والا ہے۔ ایک اور شرمناک پہلو یہ ہے کہ امراضِ قلب کے اسپتال پی آئی سی پر حملے میں خواتین وکلاء بھی شامل تھیں۔ خواتین بھی اتنی سفاک ہو سکتی ہیں کہ دل کے مرض میں مبتلا مریضوں پر حملے کی قیادت کریں۔وہ خواتین وکلاہی تھیں جنہوں نے اسپتال کے بند دروازے پر چڑھ کر اسے کھولنے کی کوشش کی۔ ویسے توحملہ آور تمام وکیلوں کو گرفتار کر لینا چاہیے جن کی شکلیں ہر چینل پر دکھائی گئیں تا ہم صرف 24 کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تمام حملہ آوروں کی شناخت آسان ہے اور ہونا تو یہ چاہیے کہ ان سب کے لائسنس معطل نہیں منسوخ کر دیے جائیں خواہ کچھ بھی ہو۔ لیکن ان وکلاء کی غنڈہ گردی اتنی منظم ہے کہ شاید ان کا کچھ نہ بگڑے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ قانون اپنا راستہ بنائے گا لیکن قانون کئی بار راستہ بھٹک چکا ہے۔ ان کالے کوٹ والوں کا یہ کارنامہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے کئی بار اپنی وحشیانہ طاقت اور جتھ بندی کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ شیرافگن نیازی تو ان کے حملے میں مرتے مرتے بچے تھے جن کو بیرسٹر اعتزاز احسن بچا کر لے گئے۔ عدالتوں میں ججوں پر حملے یا ان کو کمرے میں بند کرنے سمیت متعدد وارداتیں ان نام نہاد وکلا سے منسوب ہیں اور ان کے خلاف مقدمات درج ہیں لیکن کسی عدالت میں بھی یہ ہمت نہیں کہ مجرموں کو سزا دلوا سکے۔ اس سے ان کے حوصلے بلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان وکلاء کی اسناد اور ان کی کارکردگی کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔ جگہ جگہ کھلے ہوئے لا کالجوں سے اسناد حاصل کر کے کالا کوٹ پہن لیا جاتا ہے اور ڈگریاں کس طرح بٹتی ہیں یہ کوئی راز نہیں۔ ایسے وکلاء کا علم ان کے عمل سے واضح ہے۔ امراضِ قلب کے اسپتال پر حملہ کر کے بری طرح توڑ پھوڑ مچانے والوں کے پاس اس دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں تھا گو کہ ان بدمعاشوں کے وکلا ڈاکٹروں پر الزام ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ڈنڈے لیے بیٹھے تھے یا انہوں نے بھی پتھرائو کیا۔ وکلا نے ایک دن پہلے اپنے عزائم کی پریس ریلیز جاری کی تھی جس پر ڈاکٹروں کا احتیاطی اقدام قابل فہم ہے۔ انہوں نے بار بار 15 پر پولیس کا اطلاع دی مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔ یہ غنڈہ عناصر 5 میل پیدل چل کر اسپتال تک پہنچے اور راستے بھر نعرے لگاتے رہے کہ آج ڈاکٹروں کا آپریشن کریں گے، ان کے اسٹنٹ ڈالا جائے گا۔ اس کے باوجود پنجاب کے شیرشاہ سوری کی پولیس نے انہیں کہیں بھی نہیں روکا۔ عثمان بزدار وزیر داخلہ بھی ہیں اور پوری پولیس ان کے ماتحت ہے۔ جب تادیر حملے جاری رہے تب پولیس حرکت میں آئی اور آبی توپ استعمال کی گئی۔ ڈاکٹروں نے دل کے مریضوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے مناظر محفوظ ہو گئے ہیں۔ جن مریضوں کے ماسک لگا ہوا تھا اور انہیں آکسیجن فراہم کی جا رہی تھی ان شقی القلب حملہ آوروں نے ان کے ماسک بھی اتار پھینکے۔ مریض اپنی جان بچاتے پھرے اور 4 سے 6 افراد کی موت واقع ہو گئی۔ اس موقع پر تو قانون نے اپنا راستہ نہیں بنایا اور اب دیکھتے ہیں کہ کتنے کالے کوٹ والوں کو سزا ہو گی۔ انہوں نے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالتوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے، ایسے لوگوں کے لائسنس تو منسوخ کیے جائیں۔ ڈاکٹروں پر ایک الزام ہے کہ انہوں نے ایک ایسی وڈیو جاری کی جس میں وکلا کا مذاق اڑایا گیا۔ اس پر ڈاکٹروں نے معذرت بھی کر لی تھی اور صلاح، صفائی ہو گئی تھی لیکن اس وڈیو میں ایسا کچھ نہیں جس پر امراضِ قلب کے اسپتال پر حملہ کیا جاتا اور قیمتی مشینیں بھی برباد کر دی جاتیں۔ پنجاب کے بڑ بولے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان ہیرو بننے کے لیے بیچ میں کود پڑے جن کی پٹائی ہوئی اور بقول ان کے انہیں اغوا کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ حسب توقع انہوں نے وکلاء کی غنڈہ گردی کا الزام بھی ن لیگ پر لگا دیا۔ ان سے یہی امید تھی کہ گزشتہ 16 ماہ سے پی ٹی آئی ہر الزام اپوزیشن پر لگاتی آرہی ہے۔ حملہ آوروں میں وزیراعظم عمران خان کا بھانجا بھی شامل تھا۔اب انتظار اس بات کا ہے کہ ان دہشت گردوں کے خلاف عدلیہ اور حکومت کیا کارروائی کرتی ہے۔ کیایہ وحشی معاشرے میں کھلے پھریں گے؟