عزت مآب چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے معاملے میں جس تحمل و تدبر کا مظاہرہ کیا ہے عدلیہ کی تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا (کالم شائع ہونے تک کھوسہ صاحب سابق ہوچکے ہوں گے) حکومت کا بنا ہوا جال بہت مضبوط تھا۔ چیف جسٹس کے بقول حکومت نے آرمی چیف کا کیس خراب کرنے میں بڑی محنت کی ہے۔ سماعت کے دوران حکومت نے اتنے یوٹرن لیے کہ عدلیہ حیران رہ گئی اور قوم کو یہ حیرانی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایسے نالائق اور نااہل لوگوں کو ان پر کس مقصد کے لیے مسلط کیا ہوا ہے جو ڈرافٹ اور سمری لکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے، ملازمت میں توسیع اور تقرری کے فرق سے بھی واقف نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے چھ ماہ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کے بارے میں قانون سازی کرنے کے لیے حلف نامہ لکھوالیا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے صحت یاب ہو کر واپس آنے کے لیے حلف نامہ دیا تو عمران خان کے چیلے چاٹوں نے اپنی کامیابی
کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے کہا تھا کہ میاں نواز شریف نے خود کو گروی رکھ دیا ہے، اب تو ان کی پوری قانونی ٹیم نے خود کو گروی رکھ دیا ہے۔ سچ ہے غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔ ’’تکبر‘‘ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، عدلیہ نے یہ معاملہ پارلیمنٹ اور حکومت کے حوالے کرکے اپنا دامن چھڑالیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنی چولی کیسے بچاتی ہے، کس کس کے آگے دامن پھیلاتی ہے، مگر یہ طے ہے کہ پارلیمنٹ کا کوئی بھی رکن اپنا گریبان چاک کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ عدالت عظمیٰ نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنا بوجھ آپ اٹھائے، ہمارے کندھے استعمال کرنے کے بارے میں نہ سوچے۔ اپنے ہدف پر خود ہی نشانہ بازی کرے۔
آرمی چیف کی ملازمت میں چھ ماہ کی مشروط توسیع کردی گئی ہے اور یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کے تقرر اور توسیع سے متعلق قانون سازی کرے۔ یہ کیسی شرم ناک بات ہے کہ سماعت کرنے والے ججوں پر سی آئی اے کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا گیا۔ حالات اور واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آرمی چیف کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ سمری اور نوٹیفکیشن میں دانستہ طور پر ایسی اغلاط کی گئیں کہ عدلیہ آرمی چیف کو فارغ کردے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلے سے دشمنوں کو شکست فاش ہوئی ہے، واقفان حال کہتے ہیں کہ حکومت کو فاش شکست ہوئی ہے، چیف صاحب کہتے ہیں عدالت کے دروازے کھلے ہیں کوئی آئے تو سہی۔ چیف صاحب آپ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ عدالت میں جانے کے لیے چاندی کا بدن اور سونے کا جسم درکار ہوتا ہے۔ خیر! یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ بہت حساس ہے۔ اس کی زد میں بہت سے جرنیل آجاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ درخواست گزار کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟ اس کے مفادات اور تحفظات کیا ہیں؟ اس نے درخواست کیوں گزاری؟ کہیں وہ کسی کا آلہ کار تو نہیں؟ ایسے اور بھی کئی سوالات ہیں جن کا جاننا قوم کے لیے بہت ضروری ہے۔ غور طلب امر یہ بھی ہے کہ حکومت کی نااہلیت پر کون فکر مند ہے؟ مہنگائی بے روزگاری اور عوام کو بے گھر کرنے کی پالیسی پر کس کی نیندیں حرام ہورہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے چہرے پر ہوائیاں کیوں اُڑ رہی ہیں؟ ان پر جھنجھلاہٹ کے دورے کیوں پڑ رہے ہیں؟۔