جمہوریت کو فتح کرنے کا عمل

183

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اکثر ان کی زبان پھسل جاتی ہے۔ وہ کہنا کچھ چاہتے ہیں اور کہہ کچھ اور جاتے ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں انہوں نے یہ کہہ کر لوگوں کو حیران کردیا کہ درخت رات میں آکسیجن چھوڑتے ہیں، حالاں کہ کہنا وہ یہ چاہتے تھے کہ درخت رات میں آکسیجن نہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑتے ہیں۔ خیر یہ تو بیالوجی کا سوال تھا اور ممکن ہے انہوں نے بیالوجی نہ پڑھی ہو لیکن وہ اپنی تقریروں میں تاریخی گھپلے بھی کرجاتے ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے دورانِ تقریر جاپان کو جرمنی سے ملادیا تھا، اب انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے عبوری توسیع کو جمہوریت کی فتح قرار دیا ہے۔ حالاں کہ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہوئی ہے یا اس نے ازخود توسیع لی ہے تو اس سے جمہوریت کی فتح نہیں ہوئی بلکہ جمہوریت کو فتح کیا گیا ہے۔ اس کا آغاز پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اپنی ملازمت میں ازخود توسیع سے کیا تھا۔ انہوں نے تو ملازمت میں توسیع کے ساتھ ساتھ خود کو فیلڈ مارشل بھی ڈکلیئر کر ڈالا تھا۔ ابتدا میں انہوں نے بیشتر سیاستدانوں کو ’’ایبڈو‘‘ کی زنجیر پہنا کر سیاست سے بے دخل کرکے جمہوریت کو دیس نکالا دے دیا اور اپنی آمریت قائم کرلی لیکن جب اپنی آمریت سے دل اوبھ گیا توکنونشن مسلم لیگ قائم کرکے جمہوریت کو اپنے گھر کی باندی بنالیا۔ پھر جب وہ ایک عشرے تک حکومت کرنے کے بعد رخصت ہونے لگے تو اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار اپنے ساتھی جرنیل کے سپرد کرگئے جس نے جمہوریت کو فتح کرکے اس پر اپنی حکمرانی کا پرچم لہرادیا۔ اس کے دور میں ملک کے اندر پہلے عام انتخابات ہوئے، یہ انتخابات کتنے صاف اور شفاف تھے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بہرکیف انتخابات کا جو نتیجہ آیا اس پر جمہوریت کی چھاپ تھی۔ عوام نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا تھا اور ’’ون مین ون ووٹ‘‘ کے حساب سے عوامی لیگ کا پلڑا بھاری تھا۔ وہ جمہوری اصولوں کے مطابق پاکستان میں حکومت بنانے کی مجاز تھی لیکن نہ فوجی حکمران اس پر آمادہ ہوا نہ پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو اس پر راضی ہوئے۔ چناں چہ شدید خون خرابے کے بعد مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا۔ بلاشبہ بنگلادیش بنانے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کا بھی عمل دخل تھا لیکن بنیادی کردار ہمارے حکمرانوں ہی کا تھا جنہوں نے جمہوریت کو نہ چلنے دیا اور انتخابات کے نتیجے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا وہ بظاہر ایک جمہوری حکمران تھے اور انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آئے تھے لیکن انہوں نے جمہوریت کی وہ مٹی پلید کی کہ خدا کی پناہ! اختلافِ رائے اور اظہارِ رائے جمہوریت کا حُسن اور اس کا حق سمجھا جاتا ہے لیکن مسٹر بھٹو کسی اپوزیشن لیڈر کو یہ جمہوری حق دینے کو تیار نہ تھے۔ انہوں نے اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں اپوزیشن سیاستدانوں کو وہ اذیتیں دیں کہ قلم انہیں بیان کرنے سے بھی قاصر ہے۔ بھٹو نے جمہوریت کو تماشا بنادیا اور یہ تماشا جنرل ضیا الحق کے مارشل لا پر ختم ہوا۔ جنرل ضیا الحق اپنے طویل دور اقتدار میں آئین سے بھی کھیلتے رہے اور جمہوریت سے بھی، انہوں نے بھٹو کو بھی پھانسی پر لٹکادیا۔ انتخابات ان کے دور میں بھی ہوئے لیکن انہوں نے ان انتخابات کو مکمل طور پر غیر سیاسی اور غیر جمہوری بنانے کی پوری کوشش کی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ پاکستان میں جمہوریت بالکل اجنبی بن کر رہ گئی۔ طیارے کا حادثہ جنرل ضیا الحق کے دور کا اختتام ثابت ہوا مگر وہ زندہ رہتے تو انہیں کوئی چیلنج کرنے والا نہ تھا اور جمہوریت بدستور پایہ زنجیر رہتی۔
جنرل ضیا الحق کے بعد جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے اور سول حکومتوں کا دور شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اگرچہ دو دو باریاں لیں لیکن پسِ پردہ اقتدار کی کھینچا تانی کے سبب کوئی بھی حکومت اپنی 5 سالہ مدت پوری نہ کرسکی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف ابتدا ہی سے تمام اختیارات اپنے اندر سمیٹنے کی ہوس میں مبتلا رہے ہیں، اب ان کی پارٹی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگارہی ہے لیکن اپنے دور اقتدار میں اس نے کبھی ووٹ کو عزت نہیں دی اور اس کا قائد ہمیشہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو اپنے پائوں تلے روندتا رہا۔ اس کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی انداز میں برطرف کرنے کی کوشش میں اقتدار ہاتھ سے جاتا رہا اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار ہی نہیں جمہوریت پر بھی قبضہ کرلیا اور اپنی مدتِ ملازمت میں ازخود توسیع کرکے جمہوریت کو بار بار فتح کرتے رہے۔ ان کا پورا دورِ حکومت غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات سے عبارت ہے اور اب وہ خود ساختہ جلاوطنی بلکہ فرار اختیار کرکے اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد یکے بعد دیگرے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں آئیں۔ یہ ہماری قریبی تاریخ ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بس یہ کہنا کافی ہے کہ دونوں حکومتوں نے جمہوریت کو فاتح بنانے کے بجائے اسے فتح کرنے میں اپنی ساری قوت کھپادی۔ جس کے ردعمل میں جمہور نے انہیں 2018ء کے انتخابات میں مسترد کردیا اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی لاٹری نکل آئی۔ وہ جب سے برسراقتدار آئے ہیں جمہوریت کو فتح کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک میں پارلیمنٹ موجود ہے جس نے انہیں وزیراعظم منتخب کیا ہے لیکن پارلیمنٹ میں قانون سازی کے بجائے انہوں نے آرڈیننس کی فیکٹری لگا رکھی ہے اور آرڈیننس کے ذریعے حکومت چلارہے ہیں، اب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں عدالت عظمیٰ نے انہیں پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے تو حکومت کی ہوائیاں اُڑی ہوئی ہیں۔ جمہوریت کی فتح تو یہ تھی کہ موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد قاعدے قانون کے مطابق نیا آرمی چیف ذمے داری سنبھال لیتا، فوج کے وقار کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن عمران خان مصر ہیں کہ نہیں موجودہ آرمی چیف ہی ریٹائر ہونے کے بعد بھی برقرار رہیں گے اور اسے جمہوریت کی فتح قرار دے رہے ہیں، حالاں کہ جمہوریت کی فتح نہیں بلکہ اس طرح جمہوریت کو فتح کیا گیا ہے۔
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے