یہ حملہ تھا تصادم نہیں

176

اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پروگرام پر بہاولپور سے تعلق رکھنے والی ایک لسانی تنظیم کے دھاوے میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ایک کارکن شہید ہوگیا اور 24 زخمی ہیں۔ ان میں سے کئی کی حالت خطرناک ہے۔ جمعیت کے پروگرام پر حملے کے وقت جماعت اسلامی پاکستان کے سینئر رہنما اور نائب امیر لیاقت بلوچ خطاب کررہے تھے۔ فائرنگ سے لیاقت بلوچ تو معجزانہ طور پر محفوظ رہے مگر ان کے قریب کھڑے ایک کارکن کے پیٹ میں جبکہ دوسرے کے پیر میں گولیاں لگیں۔ جس طرح بلااشتعال دیدہ دلیری سے فائرنگ کی گئی، اس سے کئی اندیشے پیدا ہوگئے ہیں کہ جمعیت کو کسی خاص شکنجے میں لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ بہاولپور سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی لسانی تنظیم کو اسلامی جمعیت طلبہ پر دھاوا بولنے کے لیے اکسانا ، دھاوے اور قتل کو دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم قرار دینا ، بہت کچھ بتانے کے لیے کافی ہے۔ تصادم دو طرفہ ہوتا ہے جب کہ جمعیت ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنے پروگرام میں مصروف تھی جسے وہ خود کیوں خراب کرتی۔ یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ اسلامی یونیورسٹی میں کسی قسم کا اسلحہ لانے پر بہت سخت چیکنگ کی جاتی ہے۔ لیکن مسلح افراد جامعہ میں داخل بھی ہوئے اور اسلحہ کا استعمال بھی کیا۔ کیا انتظامیہ پر اس کی ذمے داری عاید نہیں ہوتی؟ سرائیکی تنظیم کو جمعیت کے پروگرام سے کیا دشمنی تھی اور کیا حملہ آور گرفتار ہوں گے؟ ایک ایسے وقت میں جبکہ پورے ملک میں تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں کی بحالی کے آثار پیدا ہوچلے ہیں ، اسلامی جمعیت طلبہ پر حملہ اور تشدد میں اسے ایک فریق قرار دینے کا کیا مطلب ہے۔ وفاق اور پنجاب کے وزراء اور ترجمان تسلسل سے یہی بیانات دے رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں انتہا پسندی مذہبی جماعتیں لے کر آئی ہیں ، اس لیے طلبہ یونینوں پر پابندی برقرار رہنی چاہیے۔ اب بین الا قوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پروگرام پر حملے سے دو مقاصد پورے ہوئے ہیں۔ ایک تو اسے سرکاری طور پر تصادم قرار دیا گیا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جمعیت اورلسانی تنظیم دونوں نے ایک دوسرے کے کارکنا ن کو ہلاک یا زخمی کیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شہید بھی جمعیت کا کارکن ہوا ہے اور زخمی بھی اسی کے کارکنان ہوئے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا وجود ہر حکمراں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اسلامی جمعیت طلبہ ہی سرکاری تشدد کا نشانہ بنی ہے۔ کراچی میں اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ لسانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ کا خاص نشانہ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان ہی رہے۔ جو تشدد اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان پر کراچی کے تعلیمی اداروںمیں سرکاری سرپرستی میں کیا گیا ، اس کی مثال تو اسرائیل اور بھارت کے حراستی مراکز میں بھی نہیں ملتی۔