با محمدؐ ہو شیار

198

بابا الف کے قلم سے

کب تک! آخرکب تک! شان رسالت مآبؐ کے باب میں وزیراعظم عمران خان کے تو ہین آمیز جملوں کو زبان کی لغزش کہہ کر نظر انداز کیا جائے؟ حسن ظن سے کام لیا جائے؟ اسلام آباد میں انسداد بدعنوانی کے عالمی دن کے موقع پر انہوں نے سرور کونینؐ کی مکی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے ٹھیک وہی لفظ استعمال کیا ہے جو رئیس المنافقین اُبی ابن سلول نے نبی کریمؐ اور صحابہ کرام ؓ کے بارے میں استعمال کیا تھا۔ جس کے جواب میں سورۃ المنافقون نازل ہوئی اور اُبی بن سلول کے صاحبزادے نے جو مخلص صحابی تھے اپنے باپ کی گردن اڑا دینے کی اجازت مانگی تھی۔ گمان یہی ہے کہ عمران خان جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے۔ لاشعوری طور پر سہی، بے علمی میں سہی لیکن تو ہین کا ارتکاب تو ہوتا ہے۔ پھر ایک بار نہیں، دوبار نہیں، متعدد مرتبہ ایسا ہوچکا ہے، سننے والوں کے قلوب تڑپ اٹھتے ہیں۔ باخدا عمران خان کو احتیاط کرنا ہوگی۔
عالی مرتبت نبی کریمؐ اور تمام انبیاء پر مسلمانوں کی عقیدت بے ادبی اور تنقید کا ہلکا سا شائبہ بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ کی قسم! آپؐ کی ذات گرامی ہمارے نزدیک ہمارے مال، اولاد، والدین اور پیاسے کو جیسے ٹھنڈا پانی محبوب ہوتا ہے اس سے بھی بڑھ کر محبوب ہے۔ بساط عالم میں کسی کے پاس عشق رسولؐ سے بڑھ کر مقدس اور قیمتی متاع نہیں۔ مسلمان اس کی حفاظت بھی ایسے ہی جی جان سے کرتے ہیں۔ ایک مغربی مفکر نے لکھا ہے: ’’جب میں مسلمانوںکے درمیان محمدؐ کا ذکرسنتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے آپؐ مسلمانوں کے درمیان ہی تشریف فرما ہیں۔ بے عمل سے بے عمل مسلمان بھی آپؐ سے ایسی محبت کرتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے‘‘۔ غالب طاعت وزہد پر جن کی طبیعت کم ہی مائل ہوتی تھی سرکارؐ کا ذکر کرتے ہیں تو رنگ ہی بدل جاتاہے۔
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ داں محمد اوست
اللہ کی بارگاہ میں میں نے محمدؐ کی ثنا کی فقط وہی ایک ذات پاک ہے جو ان کے مقام اور مرتبہ سے آگاہ ہے۔
سرور کائناتؐ کا نام دوران شراب نوشی لینے پر اختر شیرانی نے ایک ادیب کو گلاس کھینچ مارا کہ بدبخت اس حالت میں، شراب نوشی کی ناپاکی میں آقائے دو جہاںؐ کا نام لیتے ہو۔ اقبال مرتبۂ عشقِ رسالت مآبؐ کے جس درجہ پر فائز تھے کلام سے آشکار ہے۔ جب بھی سرکارؐ کا اسم مبارک زبان پر آتا آنکھیں شبنم ہوجاتیں۔ ایک طالب علم نے ’محمد صاحب‘ کہا اقبال غصہ سے کانپنے لگے چہرہ سرخ ہوگیا کہا: ’’میرے آگے سے اسے دور کردو۔ اس نابکار کو میرے آقا و مولا کا نام لینے کی تمیز نہیں‘‘۔
بارگاہِ الٰہی میں عالی مرتبتؐ کا مقام و مرتبہ جن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے موتی ہیں جو کتاب مقدس میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ’’وما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین۔ ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام عالموں کے لیے رحمت بناکر۔ اللہ اور اس کے فرشتے بھی محمدؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اپنی طرف سے وہ کچھ نہیں کہتے مگر وہی جو ان پر نازل کیا گیا‘‘۔ آپؐ کی محبت نہیں۔ ایمان نہیں۔ نجات نہیں۔ روشنی نہیں۔ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل آپؐ کا مزار مبارک وہ ادب گاہ سانسیں راستہ بھول جائیں۔ کیسے ممکن ہے! کیسے ممکن ہے؟ بار بار زبان کی لغزش کہہ کر آپؐ کی جناب میں گستاخی نظرانداز کی جائے۔
وہ شہر ربّ السموات و الارض نے جس کی قسم کھائی کہ ’’اے پیغمبرؐ ہم شہر مکہ کی قسم کھاتے ہیں اس لیے تم اس میں مقیم ہو‘‘۔ تاہم مکہ ہی وہ بستی تھی جہاں آپؐ کو قتل کرنے کے آرزو مند بستے تھے۔ جہاں آپؐ کی سیرت شخصیت اور کردار پر بدترین حملے کیے گئے۔ آپؐ پر کوڑا پھینکا گیا۔ آپؐ اور آپؐ کے اصحابؓ کے ساتھ بدترین عداوت اور شقاوت مظاہرہ کی گئی۔ لیکن اسی وادیٔ مکہ میں خیر بشرؐ فاتح کی شان سے داخل ہوئے تو ارشاد فرمایا: ’’لا تثریب علیکم الیوم‘‘۔ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے آپؐ سے جنگ لڑی، عہد شکنی ارتکاب کی، مرد اور عورتیں۔ لیکن جنہوں نے ہجوگوئی کی توہین رسالت کی ان کے باب میں رب جلیل کا حکم مختلف تھا۔ انہیں امان نہ دی جائے۔ اپنے محبوب کی توہین مالک کو گوارا نہیں۔ توہین تو درکنار اونچی آواز میں کوئی آپؐ کی جناب میں گفتگو کرے مالک کونین کو برداشت نہیں۔ اذیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اذیت الٰہی ہے۔
عمران خان کی دینی معلومات ناقص ہیں اس کے باوجود گمان یہی ہے کہ وہ مقدس شخصیات کی توہین شعوری طور پر نہیں کرتے۔ لیکن اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ ان شخصیات کا ذکر جس احتیاط کا تقاضا کرتا ہے عمران خان وہ احتیاط روا نہیں رکھتے۔ اپنے اسفل سیاسی مفادات کے لیے جس تواتر سے عمران خان ریاست مدینہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں علماء کرام فکر مند ہیں کہ کہیں ہم ریاست مدینہ کی توہین تو نہیں کررہے۔ عمران خان اسلام کو ایک لبرل دین اور نبی کریمؐ کو کبھی لبرل کہتے نظر آتے ہیں، کبھی وہ کچھ عرصے وحی کے عدم نزول کے بارے میں نبی کریم کی تشویش کو انتہائی نا مناسب الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ کبھی وہ مال غنیمت جیسی اسلامی اصطلاح کو لوٹ مار سے تعبیر کرتے ہیں۔ کبھی وہ غزوۂ بدر کے موقع پر صحابہ کرام کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’جب جنگ بدر ہوئی 313تھے لڑنے والے باقی ڈرتے تھے لڑنے سے‘‘۔ کبھی وہ کرپشن کے خاتمے کے لیے جہاد جیسی اسلامی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ عمران خان کی ان باتوں کا دفاع ممکن نہیں۔ ان باتوں پر وہ کبھی معافی کے خواست گار ہوتے ہیں اور نہ ہی کبھی شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسلام ادب کا دین ہے۔ احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔
اسلام کے علاوہ دیگر بانیان مذاہب اور ان کی تعلیمات کا ہمیں صحیح علم نہیں جبکہ نبی اکرمؐ کی شخصیت تاریخ کے ایوانوں میں ہزاروں روشن قمقموں کے درمیان پورے قد سے کھڑی ہے۔ آپؐ کی حیات طیبہ کا کون سا گوشہ ہے انسانیت جس سے آگاہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کی شخصیت ہمیشہ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ ہر عہد میں آپؐ کے ماننے والوں میں اضافہ ہوا کمی نہیں ہوئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپؐ کی ذات کو سارے جہاں سے بلند کیا ہے۔ وہ شخصیت جن کی عظمت کی گواہی چودہ صدیوں کے تاریک اور روشن زمانوں نے دی ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ رب العزت نے دی ہے تصور کیجیے اگر عالی مرتبت نبی کریمؐ اور شعائر اسلام کے بیان میں لاپروائی معمول بن جائے اور اسے لاعلمی کہہ کر مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا تو ایمان کی عمارت جو عقیدت کی بنیاد پر کھڑی ہے و ہ کن خطرات میں گھر جائے گی۔ ہر شخص کو آپؐ کا نام لینے سے پہلے لاکھ مرتبہ الفاظ کی ترتیب پر غور کرنا ہوگا۔ ہزار بار زبان کو مشک وگلاب سے معطر کرلو تب بھی آپؐ کا ذکر جس خوشبو اور پاکیزگی کا متقاضی ہے اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ اس باب میں لا پروائی برتی جائے۔ محسن انسانیت محمد عربیؐ پر اللہ سبحانہ تعالیٰ اور ان کے فرشتے درود سلام بھیجتے ہیں۔ صلو علیہ وآلہ۔