شاہنواز فاروقی
اِنسان کی زِندگی میں زبان کی اہمیت اِتنی زیادہ ہے کہ زبان اور زِندگی ہم معنی الفاظ محسوس ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ زبان زِندگی ہے اور زِندگی زبان ہے۔
زبان کی اہمیت یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات سے ہم کلام ہونے کے لیے لفظ کو ذریعے کے طور پر استعمال کیا۔ خدا ایسی ہستی ہے جو اپنی تمام مخلوقات سے ہم کلام ہوتا ہے۔ خدا جمادات، نباتات، حیوانات، سورج، چاند، ستاروں سے بھی ہم کلام ہوتا ہے، مگر اِن تمام مخلوقات سے ہم کلام ہونے کے لیے وہ لفظ کو بروئے کار نہیں لاتا۔ مگر اس نے انسانوں سے مخاطب ہونے کے لیے لفظ کو پسند کیا۔ تمام آسمانی کتب بھی زبان کے وسیلے سے انسانوں تک پہنچیں۔ لفظ یا زبان کی ایک فضیلت یہ ہے کہ خدا نے کائنات کو خلق کرنے کے لیے کُن کہا۔ خدا ایسا خلاّق ہے کہ وہ جس طرح چاہے چیزوں کو خلق کرسکتا ہے، مگر اس نے کائنات کو خلق کرنے کے لیے کُن کہنا پسند فرمایا۔ اس نے کائنات سے کہا ’’ہوجا‘‘ اور کائنات وجود میں آگئی۔ انسان عبادات کرتا ہے اور لفظ عبادت کا وسیلہ بنتا ہے۔ انسان دُعا مانگتا ہے اور زبان کی استعداد کو بروئے کار لاتا ہے۔ انسان سوچتا ہے تو زبان کے ذریعے ، انسان جذبات کو محسوس کرتا ہے تولفظ کے توسط سے، انسان علم خلق کرتا ہے تو زبان کی بنیاد پر، انسان ابلاغ کرتا ہے تو زبان کے ذریعے۔ چوں کہ عربی میں قرآن نازل ہونا تھا اور رسول اکرمؐ کو عربی میں کلام کرنا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے عربی کو غیر معمولی ترقی سے ہمکنار کردیا تھا۔ عربی کی ترقی کا یہ عالم تھا کہ عرب خود کو زبان والا اور دوسروں کو عجمی یا ’’گونگا‘‘ کہا کرتے تھے۔ بلاشبہ جس کے پاس زبان کا سرمایہ نہیں وہ گونگا نہ ہونے کے باوجود گونگا ہی تو ہے۔ Autistic بچوں کا ذہن دو سال کی عمر کے بعد نشوونما پانا بند کردیتا ہے۔ چناں چہ ان کی زبان کی استعداد دو سال کی عمر سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ چناں چہ اِن کی ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی نشوونما رُک جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تہذیب میں زبان کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سیدنا ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ایک رات انہوں نے سیدنا علیؓ کے پاس عشا کے بعد سے فجر تک قیام کیا۔ سیّدنا ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ سیّدنا علیؓ نے عربی حرف ’’ب‘‘ کے نقطے کی معنویت پر عشا کے فوراً بعد گفتگو شروع کی اور یہ گفتگو فجر کی اذان ہونے تک جاری رہی۔
زبان کی اہمیت صرف یہ نہیں ہے کہ زبان ہمارا خیال ہے۔ ہمارا جذبہ ہے۔ ہمارا احساس ہے۔ ہمارا ابلاغ ہے۔ زبان کی اہمیت یہ بھی ہے کہ الفاظ سے ’’خیال‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ خیال سے ’’عمل‘‘ جنم لیتا ہے۔ عمل سے ’’عادت‘‘ وجود میں آتی ہے۔ عادت سے ’’کردار‘‘ تشکیل پاتا ہے اور یہی کردار بالآخر انسان کی ’’تقدیر‘‘ بن جاتا ہے۔ وہ تقدیر جو انسان اپنے فکر و عمل اور عادت و کردار سے خود خلق کرتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
مگر احکامات الٰہی بھی جب تک انسان کے فکر و عمل اور عادت و کردار میں نہ دھکیلیں اس وقت انسان کی تقدیر نہیں بدلتی۔ قرآن پاک میں اللہ نے خود کہا ہے انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ ’’کوشش‘‘ کرتا ہے۔
رسول اکرمؐ کی بہت بڑی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ آپؐ انسانوں کی سطح کے مطابق کلام کرتے تھے۔ ایک صوفی کا قول ہے کہ رسول اکرمؐ معراج پر گئے اور واپس آگئے خدا کی قسم اگر میں معراج پر گیا ہوتا تو کبھی واپس نہ آتا۔ رسول اکرمؐ ہی نہیں تمام انبیا کا فرض انسانوں تک اللہ کے احکامات کو پہنچانا اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرنا تھا اور یہ دونوں کام انسانوں کے درمیان رہ کر ہی انجام پاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی علمی، روحانی، اخلاقی اور تہذیبی استعداد مختلف ہوتی ہے۔ چناں چہ تمام انسانوں سے ایک طرح کی گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ بدقسمتی سے بڑے بڑے علما اور اہل علم انسانوں سے کلام کرتے ہوئے ان کی سطح کا خیال نہیں کرتے۔ وہ ابلاغ کے لیے ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو خواص بلکہ بسا اوقات صرف خواص الخواص کے لیے ہوتی ہے۔ ایسے لوگ عام طور پر انا مرکز یا Ego Centric ہوتے ہیں اور وہ دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے شعوری طور پر مشکل زبان استعمال کرتے ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ میں غالب شعوری مشکل پسندی کی ایک بہترین مثال ہیں۔ جب غالب ’’انسان‘‘ کی حیثیت سے کلام کرتے ہیں تو ایسی زبان استعمال کرتے ہیں۔
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
مگر جب غالب کی ’’انا‘‘ کلام کرتی ہے تو غالب ’’جناتی زبان‘‘ میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً:
میں کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
یا
شمارِ سجہ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردنِ صد دل پسند آیا
میر تقی میر کی ’’بددماغی‘‘ مشہورِ زمانہ ہے مگر میر کے بہترین اشعار میں زبان و بیان کا ایسا سانچہ موجود ہے۔
وجہِ بیگانی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
٭٭
دور بیٹھا غبارِ میر اَس سے
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
بعض لوگوں کے یہاں زبان کی بلند آہنگی اس لیے بھی موجود ہوتی ہے کہ وہ پڑھے ہوئے علم کی ’’قے‘‘ کرتے ہیں اپنی ’’تفہیم‘‘ نہیں لکھتے۔
زبان اتنی اہم ہے کہ ایک فقرہ انسان کی پوری تاریخ اور تہذیب کو بیان کردیتا ہے۔ اسی لیے سیدنا علیؓ نے فرمایا ہے کہ کلام کر تا کہ پہچانا جائے۔ کہا گیا اور لکھا گیا ہر لفظ انسان کے علم، کم علمی یا جہالت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ اس کے مہذب یا غیر مہذب ہونے کی شہادت فراہم کرتا ہے۔ اس کی محبت اور اس کی نفرت کو بیان کرتا ہے۔ اس کے تعلق اور بے تعلقی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی امیدوں اور اس کی مایوسیوں کو آشکار کرتا ہے۔ چناں چہ علم رکھنے والے ایک فقرے سے بھی انسان کو پہچان جاتے ہیں۔
زبان میں ایک چیز لفظ ہوتا ہے اور دوسری چیز لفظ کی تاثیر ہوتی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ لفظ کی تاثیر ’’لسانی اہلیت‘‘ سے پیدا ہوتی ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے آگے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ ’’شعلہ بیان‘‘ کہلاتے ہیں اور مجمعے میں آگ لگادیتے ہیں۔ لیکن لفظ کی حقیقی تاثیر لفظ میں موجود صادقت کو بسر کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ کتنے شاعر ہیں جو محبت کے ترانے گاتے رہتے ہیں مگر ان کے ترانوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ محبت شاعروں کے لیے صرف ایک ’’تصور‘‘ ہوتی ہے۔ انہیں محبت کا ’’تجربہ‘‘ نہیں ہوتا۔ مگر جب کہیں شعر میں محبت کا تجربہ کلام کرتا ہے تو شعر میں ایسی تاثیر پیدا ہوتی ہے جو دلوں میں گھر کرلیتی ہے۔ دنیا میں لاکھوں ’’خطیب‘‘ یا مقرر موجود ہیں اور جب کہ ہم نے عرض کیا خطیب کی تعریف کرنی ہو تو ہم اسے ’’شعلہ بیان‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن شعلہ بیانی ’’خطابت‘‘ نہیں ہے۔ خطابت کا اصل مفہوم ہے ’’صداقت‘‘ موثر طریقے سے بیان کرنا، اسے موثر بنا کر معرضِ اظہار میں لانا۔ ظاہر ہے کہ صداقت کو وہی موثر بناسکتا ہے جو صداقت کو بسر کرنے والا ہو۔
زبان کے سلسلے میں لفظ اور معنی کی بحث بھی ہے۔ لفظ اور معنی کے رشتے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ معنی کے لیے ایک لفظ طے ہے یعنی اس معنی کو صرف اسی طے شدہ لفظ کے ذریعے بیان کیا جاسکتا ہے۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی شخص معنی کو اچھی طرح سمجھ اور جذب کرلے تو وہ اس معنی کو ایک سے زیادہ لفظوں کے ذریعے بھی بیان کر سکتا ہے۔ لفظ اور معنی کے اس رشتے کا سب سے اہم مظہر مولانا مودودی کا علم کلام ہے۔
انہوں نے دین کے اصل مفہوم میں رتی برابر تبدیلی کیے بغیر دین کو بیان کرنے والے پورے لسانی سانچے کو بدل ڈالا۔ اس کے بغیر مولانا عہد حاضر کے ذہن کو متاثر نہیں کرسکتے تھے۔
انسان کی لسانی اہلیت صرف شعر و ادب یا فکر و فلسفے کو سمجھنے کے حوالے ہی سے اہم نہیں بلکہ عہد حاضر کے ان علوم کے حوالے سے بھی ہے ریاضیاتی فارمولوں کے ذریعے اپنے حقائق کا ابلاغ کرتے ہیں۔ مثلاً ریاضی، طبیعات کیمیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ریاضیاتی فارمولوں کا تعلق تصورات سے ہوتا ہے اور تصورات کی جڑیں زبان میں پیوست ہوتی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اچھا شاعر یا ادیب ہونے کے لیے ہی زبان کی اہلیت ضروری نہیں بلکہ اچھا ماہر ریاضیات یا ماہر طبیعات ہونے کے لیے بھی زبان کی اہلیت ضروری ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ زبان آنے کا کیا مفہوم ہے؟ اس سلسلے میں ماہرین نے ایک فارمولا وضع کیا ہوا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ زبان اس شخص کو آتی ہے جو اپنی مادری زبان میں ہونے والی شاعری کو پڑھ سکے، سمجھ سکے اور اس سے لطف اندوز ہوسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے انسانوں کی لسانی اہلیت سکڑ سمٹ کر بہت محدود ہوگئی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جن لوگوں کی مادری زبان اردو ہے انہیں اردو نہیں آتی۔ جن لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہے پنجابی نہیں آتی، جن لوگوں کی مادری زبان سندھی ہے انہیں سندھی نہیں آتی اور انگریزی میڈیم کے لوگوں کو انگریزی نہیں آتی۔ اس دعوے کا ثبوت یہ ہے کہ جن لوگوں کی مادری زبان اردو ہے ان میں ایم اے کی سطح کے اکثر طالب علم میر، غالب اور اقبال کو سمجھنا تو دور کی بات ان کی شاعری کو ٹھیک طرح پڑھ بھی نہیں سکتے۔ جن لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہے وہ وارث شاہ اور بلھے شاہ کا متن پڑھنے کے اہل نہیں۔ جن کی مادری زبان سندھی ہے وہ شاہ لطیف کی شاعری کو وزن میں نہیں پڑھ سکتے۔ رہے انگریزی میڈیم کے لوگ تو وہ کیٹس، شیلے اور ورڈز ورتھ کو پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ایک اندازے کے مطابق جو لوگ اخبار پڑھتے ہیں ان کا ذخیرہ الفاظ 800 سے ایک ہزار الفاظ پر مشتمل ہے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مغربی ممالک میں ایسے Chimpanzees موجود ہیں جو علامتوں کی مدد سے 800 سے ایک ہزار الفاظ کو پہچان لیتے ہیں۔ یعنی اب ہماری نئی نسلوں کی لسانی اہلیت Chimpanzees کی سطح پر آگئی ہے۔ اس لسانی سانچے کے ذریعے کوئی بڑا فکری اور تخلیقی کام ممکن ہی نہیں۔