!دل کے اسپتال میں دل ہلادینے والا واقعہ

143

 پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں 11 دسمبر کو جو کچھ ہوا اس کے نتیجے میں وکلا کی لاقانونیت بلکہ غنڈہ گردی عیاں ہوگئی۔ اگرچہ یہ واقعہ جس کے نتیجے دل کے امراض میں مبتلا تین مریض جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے لیکن یہ بھی واضح ہوگیا کہ قانون کے طالب علموں پر جب شیطان سوار ہوتا ہے تو وہ انتہائی ظالم ہوجاتے ہیں، پھر وہ نہ مریضوں کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے مسیحائوں کا، اپنے آپ کو قانون دان کہلانے والے لاہور کے امراض قلب کے اسپتال میں استقبالیہ سے لیکر وارڈز تک ہر چیز کو توڑ پھوڑ کر دراصل انسانیت کے معروف اصولوں کی دھجیاں اڑاتے رہے۔ انہیں روکنے والا کوئی ہوتا تو ڈنڈا بردار وکلا کا یہ ہجوم اسپتال میں داخل بھی نہیں ہوسکتا تھا اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو انہیں فوری طور پکڑ کر عدالتوں تک پہنچادیا جاتا۔
وکلا کی اس دہشت گردی پر خود وکلا تنظیموں کے رہنما شرمندہ ہوگئے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ امراض قلب کے اسپتال میں وکلا کے حملے سے سر شرم سے جھک گیا ہے، وکلا کا کوٹ قائداعظم محمد علی جناح کی نشانی ہے، جن وکلا نے اسپتال میں حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ ملک میں عدم برداشت کا رجحان تو عام بات ہے لیکن مقدس سمجھے جانے والے پیشوں سے وابستہ افراد عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح آپے سے باہر ہوجائیں تو وہ نہ صرف اپنے پیشے کا مذاق بناتے ہیں بلکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود جاہل ہیں۔ ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں، جس طرح وہ عدالتوں کے اندر بغیر حلف اٹھائے اپنے موکل کی حمایت میں جھوٹ آزادی سے بول سکتے ہیں اسی طرح کسی بھی مقام ہر چاہے وہ اسپتال ہی کیوں نہ ہو وہاں بھی اپنی ’’اصلیت بغیر کسی قانون یا اصول کے دکھا سکتے ہیں‘‘۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) قانون کے طالب علموں کے ہاتھوں لاقانونیت کا نمونہ بنا رہا مگر پنجاب کی پولیس 3 گھنٹے تک کچھ نہ کرسکی، نہ حملہ آوروں کو گرفتار کرسکی اور نہ ہی جارحانہ پرتشدد کارروائی کرنے سے روک سکی۔ حملہ آور اس قدر بے خوف تھے کہ انہوں صوبائی وزیر چوہان کو بھی اپنے تشدد کا نشانہ بنایا۔ واقعہ کی تفصیلات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس حملے میں مبینہ طور پر وزیراعظم کے ایڈوکیٹ بھانجے بھی پیش پیش تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس نے مذکورہ بھانجے کو بھی گرفتار کیا یا کرے گی؟ پاکستان تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں انصاف کا تقاضا تو یہ ہوگا کہ سب سے پہلے ان افراد کو گرفتار کیا جائے جو حکمرانوں کے رشتے دار ہیں تاکہ دیگر ملزمان کو تفریق کا احساس نہ ہو اور مظلوم مریض اور ان کے تیمارداروں کو حکومت نام کی کسی شے کی موجودگی کا یقین آسکے۔ بہرحال اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس واقعہ کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔ اس واقعہ پر عدالت بھی شرمندہ ہے۔ مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے سوال کیا کہ اسپتال پر حملے کی جرأت کیسے ہوئی، وکلا نے جو کیا وہ جنگل کا قانون ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے واقعہ کے ملزمان کے وکلا سے کہا کہ ’’آپ تسلیم کریں لاہور بار میں منصوبہ بندی ہوئی، آپ کے پیشے میں کالی بھیڑیں ہیں کیا بار کارروائی کرے گی؟‘‘ ملک کا المیہ یہی تو ہے کہ کارروائی کرنے کی اتھارٹی، مجرمانہ کارروائی کے متعلقین سے یہ سوال کررہی ہے۔ عام آدمی آج سوچنے پر مجبور ہے کہ ہمارے اہم ادارے اب فیصلے کرنے کے بجائے تبصرے کرنے لگے ہیں؟ تاہم پوری قوم کو یقین ہے کہ عدالت عالیہ لاہور جلد ہی اس واقعے میں ملوث ہر ملزم کے خلاف انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرے گی۔