تاریخ کا سبق، سقوط ڈھاکا

350

تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ہم تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے اس لیے اپنی تاریخ کے تاریک سانحات کی تکرار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں نے اس حوالے سے کبھی سبق حاصل نہیں کیا خصوصاً پاکستانی قوم اور اس کے ادارے تو اب اس کے مخالف سمت کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سقوط ڈھاکا صرف پاکستان کے لیے المیہ نہیں تھا بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا المیہ تھا لیکن اس سانحے کے بعد اس سانحے کی قبر پر سیاست کے مینار تعمیر کیے گئے۔ بھٹو صاحب جو سقوط ڈھاکا کے مرکزی کردار میں سے تھے نے نیا پاکستان بنایا تھا۔ ان کا بنایا ہوا پاکستان تو تھا بھی نیا۔ ایک بازو کے بغیر… مشرقی پاکستان کی علیحدگی صرف پاک فوج کے جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے سے نہیں ہوئی۔ کئی برس سے اس کی تیاری ہو رہی تھی لیکن سیاستدان اور حکمران فوج نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی 1970ء کے انتخابی نتائج نے سب کو چونکا دیا۔ لیکن خرابی اس میں بھی نہیں تھی خرابی یہ تھی کہ انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور اکثریتی پارٹی کو اقتدار سے محروم کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکا جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی گئی۔ پھر اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ بھی اخبار نے اچھالا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب میں بنیادی غلطی وہی تھی جو اب بھی جاری ہے۔ یعنی جس مقصد کے لیے ملک حاصل کیا گیا تھا اس کے بجائے یہاں تجربات شروع کر دیے گئے۔ ایوب خان کے مارشل لاء نے جو تباہی پھیلائی تھی اس کے اثرات دیر تک سامنے آتے رہے۔ اس مارشل لاء کو جائز قرار دینے والے نظریہ ضرورت کو بار بار زندہ کیا جاتا ہے۔ نا انصافی تو تیسرے چوتھے نمبر پر آتی ہے۔ باقی ماندہ نئے پاکستان میں بھی نا انصافی ہوتی رہی اور اب مزید نئے پاکستان میں بھی جاری ہے۔ اگر اس بنیاد پر ملک ٹوٹنا ہوتا تو پنجاب کے کئی ٹکڑے ہو چکے ہوتے کیونکہ وہاں کا تو ہر جاگیردار ایک الگ ریاست ہوتا ہے۔ اس کے مظالم کے نتیجے میں پنجاب کے پچاس ٹکڑے تو ہو جانے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہوتا… کیونکہ پنجاب کے افسر شاہی اور اسلام آباد کے حکمران اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے معاملے میں مرکز اور افسر شاہی سیاسی و فوجی دونوں کی خواہش تھی کہ اس سے جان چھوٹے۔ لیکن جس انداز میں جان چھڑائی گئی وہ امت مسلمہ کے منہ پر بدنما داغ ہے۔ مسلمانوں نے بڑی بڑی شکستیں کھائی ہیں لیکن 93 ہزار فوج نے ہتھیار صرف ڈھاکا میں ڈالے۔ یہ شکست پاک فوج کے حصے میں آئی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس شکست اور سانحے سے سبق لیا جاتا… لیکن کوئی سبق نہیں لیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں قومی سیاسی جماعتوں کا راستہ روکنے کے لیے لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دی گئی، لسانی تنظیم کی سرپرستی کی گئی پھر وہ قابو سے باہر ہوگئی اور سب منہ دیکھتے رہ گئے۔ نئے پاکستان میں بھی سندھی قوم پرستی، مہاجر قوم پرستی، پختون اور بلوچ قوم پرستی کو ہوا دی گئی سب کو پنجاب کا چہرہ دکھایا گیا اور مرکز میں کوئی ایسا نہیں تھا جو سب کو ساتھ لے کر چل سکتا چنانچہ سندھو دیش، پختونستان اور آزاد بلوچستان کی بنیاد پر تحریکیں چلنے لگیں۔ نا انصافی اُس نئے پاکستان میں بھی جاری رہی جو بھٹو نے بنایا تھا اور اِس نئے پاکستان میں بھی جاری ہے جو عمران خان نے بنایا ہے۔ بھٹو کے نئے پاکستان سے قبل اور بعد بھی فوج سیاست میں دخیل رہی اس کی مرضی سے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔ اورسب سے بڑھ کر انتخاب کو انجینٹرڈ کیا گیا۔ جیتنے والا ہار جاتا اور ہارنے والا جیت جاتا۔ عمران خان کے نئے پاکستان کے لیے انتخابی نتائج کے ساتھ سب سے زیادہ فراڈ کیا گیا۔ میڈیا، الیکشن کمیشن، عدالتیں سب یا تو خرید لیے گئے یا دبائو میں ایسے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ فلاں جیتا ہوا ہے لیکن رات کو دوسرا فرد جیت گیا۔ کراچی کی 11 نشستوں کے فیصلے 24 گھنٹے تک روکے گئے۔ دیر وغیرہ میں سیکورٹی ڈیوٹی والے ڈبے اٹھا کر لے گئے۔ بیلٹ بکس سے سیکورٹی والے پرچیاں نکالتے دیکھے گئے پھر بھی کچھ نہیں ہوا۔ اب اس نئے پاکستان میں لال رنگ کی بہار دکھانے کی کوشش کی گئی۔ وکلاء، طلبا ، دینی مدارس، ڈاکٹر سب کو خراب کر دیا۔ سیاستدان کو گالی بنا دیا گیا۔ اس میں ان سب کا حصہ بھی ہے اور سب سے خراب کردار میڈیا کا ہے۔ جس کی ذمے داری تھی کہ سچ بتاتے، سچ دکھاتے، وہ سچ چھپانے لگا۔ یہی مشرقی پاکستان میں ہوا۔ سچ کو چھپایا گیا۔ مسلط کردہ حکمران تھے نا انصافی بھی تھی، سب سے بڑھ کر کم ہمتی بھی تھی ورنہ مشرقی پاکستان کے لیے 30 ہزار فوج بھی کافی تھی۔ آج تک لڑ رہے ہوتے۔ لیکن ہتھیار ڈال دیئے 16 دسمبر 1971 کو پلٹن میدان میں۔ ہتھیار ڈالے گئے لیکن اب کوئی تقریب نہیں ہوتی۔ کشمیر میں ہتھیار ڈالے گئے ہیں۔ بھارت کے سامنے ہر میدان میں ہتھیار ڈالے گئے ہیں۔ انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے ہیں۔ گویا اصل انتخاب کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ڈھائی لاکھ محصورین آج بھی غیر انسانی ماحول میں بنگلا دیش کے کیمپوں میں پڑے ہیں۔ ان کا صرف ایک گناہ ہے… وہ یہ کہ وہ خود کو پاکستانی کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان اسٹیبشلمنٹ انہیں پسند نہیں کرتی۔ اب ان کی تیسری نسل وہاں سڑ رہی ہے لیکن وہ 14 اگست مناتے ہیں۔ پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔ صرف ان کی حالت دیکھ لیں تو حکمران کسی درجے میں ضرور شرمسار ہو جائیں گے۔ پاکستان نے کرتارپور میں بھی ہتھیار ڈالے ہیں۔ دریائوں پر بھارتی قبضے پر بھی ہتھیار ڈالے ہیں۔ نئے شہریت قانون پر بھی اقدام کوئی نہیں۔ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ یہ سوال کون اٹھائے گا کہ سندھ میں تیزی سے ہندو آبادی کیسے بڑھ رہی ہے۔ یہ کہاں سے آئے چلے جا رہے ہیں۔ ہر محکمے میں ہندو آرہے ہیں۔ کیا صرف وہی پڑھ لکھ رہے ہیں۔ اس جانب سے آنکھیں بند ہیں۔ گلیوں، محلوں میں کچی آبادیوں میں ان کے بڑے بڑے گڑھ بن گئے ہیں۔ کیا ان سے ان کی شہریت پوچھی جا رہی ہے۔ کس کس کے پاس کہاں سے شناختی کارڈ آرہے ہیں۔ اورنگی والوں کے شناختی کارڈ کی تو چار مرتبہ بنانے کے بعد تجدید نہیں کی جارہی ان سے پاکستانیت کا ثبوت مانگا جا رہا ہے جبکہ ہندو بڑھتے جا رہے ہیں۔ بنگلا دیش کے غدار حکمران مجیب کی بیٹی کے ہر اقدام پر پاکستانی حکمران ہتھیار ہی ڈال رہے ہیں۔ پاکستان سے محبت کرنے کے جرم میں پھانسیوں کو بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ غدار مجیب تھا جماعت اسلامی والے نہیں اگر جائزہ لیں تو تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیا گیا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے گئے۔ لسانیت کو ہوا دی گئی، ناانصافی کو فروغ دیا گیا، سیاست میں فوج کا دخل جاری رہا۔ چھوٹے اور بڑے کے لیے الگ قانون جاری رہا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس مقصد کے لیے یہ ملک بنا تھا اس کے سوا سارے کام کرتے رہے۔ سود کو قرآن میں اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا۔ ہمارے سارے حکمران اس جنگ میں کودے ہوئے ہیں اور شکست پر شکست کھا رہے ہیں۔ جب تک اس ملک میں قرآن و سنت کے نظام کو نافذ نہیں کریں گے۔ اس ملک کو ترقی نہیں دے سکیں گے۔ تاریخ کا یہی سبق ہے کہ جس مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا اسے پورا کیا جائے۔ آج کل جگہ جگہ ایک اسکول کے بینرز لگے ہوئے ہیں’’شکریہ جناح‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں قوم کو یہی کہنا چاہیے لیکن اب 72 برس گزر چکے اب جناح کی طرف سے یہ آواز آنی چاہیے شکریہ میری پاکستانی قوم… تم نے میرا پاکستان اس طرح کا بنا دیا جیسا میں چاہتا تھا۔ یہ بھی تاریخ کا ایک سبق ہوگا۔