ممتاز حسین انصاری
٭ سلام ان شہیدوں کو جو حُب ِ پاکستان کے جرم میں مشرقی پاکستان کی سرزمین پر بے دردی سے ذبح کردیئے گئے۔ سلام اُن شہیدوں کو جو نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے سینہ سپر ہوئے بنگالی اکثریت کی جانب سے مغرب اور پنڈی کی دلالی کا طعنہ سہتے ہوئے گولیوں سے بھون دیئے گئے۔ سلام ایسٹ پاکستان سول آرم فورس کے ان جوانوں کی جو افواج پاکستان کے شانہ بہ بشانہ دفاع پاکستان کا ہراول دستہ بنے اور اپنی کڑیل جوانی پاکستان کی حرمت پر نچھاور کردی ۔ سلام افواج پاکستان کے ان بہادر سپوتوں کوجو اپنے گھروں اور اہل و اعیال سے دور تحفظ پاکستان کا فریضہ انجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ سلام الشمس و البدر کے ان جیالوں کو جو دفاع پاکستان کیلئے اپنی جوانیاں لٹا گئے۔ سلام دیناج پور والوں پر جنہیںقبر کی آغوش بھی نصیب نہ ہوئی پوری بستی جن کے خوں سے لالہ زار بنی ہفتوں بعد جن کی نعشو ںکو دریا بُرد کیا گیا۔ سلام ان ہزاروں مائوں بہنوں اور بیٹیوں کو جنہوں نے چادر عصمت کو تارتار ہونے سے بچانے کیلئے اپنے آپ کو دریائوں ۔ ندی ، نالوں، کنوئوں اور تالابوں کے سپرد کردیا سلام ان بیبیوں کو جنہیں مکتی باہنی کے بھوکے بھیڑیوں نے پامال کرکے زندہ درگور کردیا۔ سلام ان معصوم اور کمسن کلیوں کو جن سے انکا بانکپن چھین لیا گیا۔سلام ان مائوں کو جن کی گود اجاڑ دی گئی سلام ان بہنوں کو بھری جوانی میں جن کا سہاگ اجڑا۔ سلام حوا کی ان بیٹیوں پر جنہیں اجتماعی درندگی کا نشانہ بنایا گیا بلکہ بنایا جاتا رہا۔ سلام مشرقی پاکستان کے طور و عرض میں شہر شہر گائوں گائوں کوچہ کوچہ قریہ قریہ بکھرے پاکستان پرستوں کے بے گور و کفن نعشوں پر جو جنگلی جانوروں ، بھوکے کتوں اور گدِھوں کا نوالہ بن گئے کاش اس وقت کوئی الیکٹرانک میڈیا ہوتا جو ان مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیتا اور آج پاکستان کے ارباب اختیار ، ارباب فکر و دانش، عدلیہ ، مقننہ، علماء، صحافیوں، وکلاء، سیاسی رہنمائوں، انسانی حقوق کے علمبرداروں افواج پاکستان سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے محب وطن پاکستانیوں کو دیکھا کر یہ سوال کرتا کہ سرزمین بنگال پر پرچم پاکستان کو تارتار ہونے سے بچانے کیلئے جو خود تار تار ہوگئے۔ نظریہ پاکستان کی دھجیاں سمیٹتے ہوئے جن کی اپنی دھجیاں اُڑ گئیں۔ پاکستان کی آبرو اور حرمت کیلئے جنہوں نے اپنا سب کچھ نثار کردیا۔ وہ کون لوگ تھے،وہ گمنام کیوں کردیے گئے، کہیں ان کاتذکرہ کیوں نہیں ملتا ہر سال 16 دسمبر آتا ہے اور خاموشی سے گذر جاتا ہے ۔ میڈیا یا کسی اور فورم پر سقوطِ ڈھاکا اگر زیرِ بحث آتا بھی ہے تو صرف اس کے اسباب و محرکات پر بات ہوتی ہے۔ اتنے بڑے انسانی المئے پر کوئی لب کشائی کیوں نہیں کرتا، ان محب وطن پاکستانیوں کی دیوانگی،اولوالعزمی اور نظریہ پاکستان سے اس قدرگہری وابستگی۔ کیا کوئی ندامت اور شرمندگی کی بات ہے؟ جسے آنے والی نسلوں سے چھپایا جائے۔ آج پاکستان کا نوجوان اپنی تاریخ کے اس اہم اور غیر معمولی حادثے سے واقف ہے اور نہ ہی اس سے جڑے ابتلاء امتحان کی گھڑی میں استقامت کا مظاہرہ کرنے والوں کے کردار سے چاہئے تو یہ تھا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے اسبا ب و محرکات کے ساتھ ساتھ وحدت پاکستان کے حامی ان سخت جان، وفاشعار، ایثار پیشہ محب وطن انسانوں کی جماعت کے کردار کوجا نچا اور پرکھا جاتا جنہوںنے صرف پچیس سال قبل پاکستان کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا اور ایک دفعہ پھر جن کی موت و حیات صرف پاکستا ن کیلئے تھی اور جن کا وجودبئے پایاں مصائب جھیلنے کے پاکستانی کی حیثیت سے زندہ رہنے کا عزم ابھی تک متزلزل نہیں ہوا تھا۔ ان وفا شعاروں کی بے مثال اور لازوال قربانیوں کونا صرف یادرکھا اور سراہا جاتا بلکہ اس سے آنے والی نسلوں کو آگاہ رکھنے کا بھی بندوبست کیا جاتا۔ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ سقوطِ ڈھاکا کے وقت بنگالی قوم پرستوں کے جھوٹے داعوئوں، بھارتی اور عالمی میڈیا کی حد سے زیادہ مبالغہ آرائی پر مبنی پروپگنڈے جس میں پاک فوج کے ہاتھوں 30لاکھ بنگالی شہریوں کی ہلاکتوں اور 5لاکھ بنگالی عورتوں کی آبرو ریزی کا فسانہ گھڑ کردنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکاگیا تھا۔ جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس تھی۔ دنیا بھر میں سقوط ڈھاکا پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں مگرحال ہی میں امریکہ سے شائع ہونے والی سب سے زیادہ مستند اور تحقیقی مواد پر مبنی کتاب (Dead Reckoning) پروفیسر سرمیلا بوس کی ہے۔ جس میں انہوں نے انتہائی باریک بینی اور گہری تحقیق کے بعدبنگالی قوم پرستوں کے داعوئوں کو لغو، بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا ہے اور تمام آثار و قرائن کی روشنی میں اس امر کابرملا اظہار کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان مشرقی پاکستان میں مقیم اردو بولنے والے پاکستان نواز بہاری مسلمانوں کا ہوا انہیں شہر شہر بے دردی سے قتل کیا گیا۔ مال واسباب لوٹ لئے گئے بڑی تعداد میں خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ اردو بولنے والوں کی چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہر شہر میں تھیں جو چاروں طرف سے بنگالی اکثریت کے گھیرے میں تھیں بنگالی انتہا پسندوں کا دست ستم روکنے والا کوئی نہیں تھا چنانچہ یہ لوگ مکتی باہنی کا آسان ہدف بنے۔ بادی النظر میں شہر شہر بہاری مقتولین کی جابجا بکھری نعشوں کو ہی ہند وستانی میڈیا نے پاک فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کا قتل عام مشہور کرایا۔ مشہورِ زمانہ کنچن ندی کا پانی دراصل بہاریوں کے خون سے سرخ ہوا ناکہ بنگالیوں کے افسوس کے ” پاکستان کی محبت میں مارے جانے والے بہاری مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں اور بے وقعت تھا کہ حکومت پاکستان نے سرکاری طور پر کبھی اسکا کلیم کرنا گوارا کیا اور نہ ہی مشرقی پاکستان میں بہاریوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مطالم کی داستان سے اپنی قوم اور دنیا کو روشناس کرانے کا اہتمام کیا دنیا آج تک پاکستان اور افواج پاکستان کو ہی جارح اور مشرقی پاکستان میں تمام تر ہلاکتوں کی ذمہ دار سمجھتی ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد بننے والی محمود الرحمٰن کمیشن کی سرسری رپورٹ کو ہی کافی جان کر اس باب کو ہمیشہ کیلئے بند کردیا گیا۔ آج اگر دنیا کے سامنے سچ آشکار ہورہا ہے تو وہ پروفیسر سرمیلا بوس جیسی غیر ملکی مخفق کی کاوشوں کی بدولت۔ گذشتہ دنوں جنگی جرائم کے ماہر برطانوی وکیل (Toby Cadmen)نے ایک انٹرویو میں اس بات پر افسوس او رحیرت کا اظہار کیا کہ ابھی تک پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت پاکستان نواز بہاریوں پر ہوئے مظالم اور ان کی وفا پرستی پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہزار و ہزار بہاریوں کی ہلاکتوں کی ذمہ دار عوامی لیگ اور اسکی عسکری تنظیم مکتی باہنی ہے۔ جبکہ انہوں نے بھی پاک فوج پر شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کے الزامات کو مسترد کیاہے۔
دوسری طرف یہ المیہ بھی تاریخ کا ایک جبر ہی ہے کہ انہیں پاکستان نواز، محب وطن، وفاشعاربہاری مسلمانوں پر ان کے اپنے ہی ملک کے دروازے بند ہیں۔ آج بھی ڈھائی لاکھ پاکستانی بنگلہ دیس کے انہیں کیمپوں میں محصور ہیں جو لگ بھگ نصف صدی قبل انٹرنیشنل ریڈ کراس نے قائم کئے تھے۔ پاکستانی حکومت نہ انہیں پاکستان لاتی ہے اور نہ ہی کھل کر ان سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے۔ 5ستمبر 2017کو ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے فرمایا کہ ” حکومت پاکستان نے کبھی محصور پاکستانیوں کو ڈس اون نہیں کیا البتہ انکا مسئلہ سیاست کی نظر ہوگیا ہے” محصورین کی منتقلی سیاست کی نذر ہوکر کھٹائی میں پڑگیا یہ بات تو قابل فہم ہے۔ مگر جو محصورین کسی نہ کسی طرح ازخود پاکستان آگئے انہیں حق شہریت سے محروم رکھنے کا کیا جواز ہے۔ پاکستان کیلئے دو دفعہ قربانی اور دو ہجرتوں کا دکھ سہنے کے باوجود وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ نادرا گذشتہ 17سال سے بہاریوں کو تارکین وطن کی صف میں کھڑا کرکے انکی قربانیوں ، انکی حب الوطنی اور وفا پرستی کا مذاق اڑا رہا ہے۔ جبکہ ارباب اختیار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان آج بھی اپنے خالق نظرئے کی بنیاد پر قائم ہے تو پھر ملک کے منصفوں اور طاقت ور اشرافیہ سے مندرجہ ذیل سوال تو بنتا ہے۔
1۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ بہاریوں کی نظریہ پاکستان سے وابستگی ایک مسّلمہ اور اٹل حقیقت ہے۔ جسکا ثبوت انہوں نے قیام و دفاع پاکستان کیلئے اپنی بے مثال قربانیوں سے دیا ہے۔ توپھر برس ہا برس سے دیا رِغیر کے کیمپوں میں محصوررہ کر وہ کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں کیا سچے اور کھرے محب وطن پاکستان پرست لوگوں کی اس طرح بے توقیری پاکستان کے نظریاتی سرحدوں کی پامالی نہیں؟
2۔ سقوط ڈھاکا سے اب تک کبھی رابطہ ٹرسٹ بنا کر کبھی فنڈ قائم کرکے کبھی منتقلی کے حق میں بیانات دیکر کبھی میاں چنوں میں ان کی
آباد کاری کیلئے 96ایکڑ زمین مختص کرکے محصورین کی آس اور امیدوں کو کیوں زندہ رکھا گیا جس کے نتیجے میں ان کی تین نسلیں تباہ ہوگئیں۔
کیا اس طرح محب وطن پاکستانیوں کے جذبات کو مجروح کرنا پاکستان کے نظریاتی سرحدوں کی پامالی نہیں؟
3۔ آپ آج تک اُنہیں پاکستانی کہتے اور سمجھتے ہیں حتیٰ کہ ساری دنیا انہیں پاکستانی ہی کہتی ہے اسی پاکستانی کا دیارغیر سے پاکستان کا آنا جرم کیوں۔ مفتوحہ ملک کے باشندے اپنی جان مال آبرو بچانے کیلئے ہجرت کے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کے ویانہ کنونشن کے انسانی حقوق چارٹر میں بھی ہر فرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ملک واپس آنے کیلئے جو طریقہ بھی استعمال کرے اسکا حق شہریت تسلیم کیا جائے گا۔ پھر ازخود پاکستان منتقل ہونے والے بہاری پاکستانی اپنے ہی ملک میں تارکین وطن کیوں۔ اپنے ہی ملک میں اپنے یہ نظریاتی پاکستانی بھائیوں کے ساتھ اہانت پر مبنی سلوک کیا پاکستان کے نظریاتی سرحدوں کی پامالی نہیں۔
کیا ارباب اختیار اس حساس مسئلے کا نوٹس لیں گے یا اس ملک میں حب الوطنی اور وفاپرستی اسی طرح رسوا ہوتی رہے گی؟ آخر میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے تمام شہداء کو دہشت گردی کی جنگ میں ملک بھر میں شہید ہونے والے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو آپریشن راہ نجات، آپریشن ضربِ عضب اور جاری آپریشن ردالفساد کے تمام شہداء کو سلام اور خراج عقیدت۔