جاوید الرحمن ترابی
فرض کر لیا ہے کہ کشمیر پر بھارتی مظالم کا سلسلہ پانچ اگست دو ہزار انیس کو شروع ہوا حقیقت میں بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ سترہ اگست انیس سو سینتالیس کو اس وقت کیا تھا جب ریڈ کلف نے پٹھان کوٹ بھارت کو دے دیا اور وہ اپنا کام کر کے رخصت ہو گیا اس نے سترہ اگست انیس سو سینتالیس کے بجائے ہمیں پانچ اگست دو ہزار انیس کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے ہم دنیا میں شور مچاتے ہیں کہ بھارت نے 130 دنوں سے کشمیر میں ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ہمیں اپنا حساب درست کر لینا چاہیے تاکہ ہم بھارت کے ایک ایک ظلم کا شمار کر کے دنیا کے سامنے تصویر رکھ سکیں۔ ہم اسی لاکھ کشمیریوں کا رونا روتے ہیں بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل منظور کر کے یاد دلایا ہے کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ درست تھا بھارت انہیں وادی کشمیر میں اقلیت میں بدلنے کی تیاری کر رہا ہے اور طویل عرصے کے فارمولے میں ان کا وجود اسی طرح حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہتا ہے۔ ہماری قوم کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے یلغار کے فیصلے کی قوت سے محروم ہے ہم مصلحت کا شکار ہیں جب ہم قومی سطح پر فیصلہ کریں گے کہ ہم کو کشمیر بزور طاقت آزاد کرانا ہے اور کشمیریوں کے لیے خالی خولی نعرے بازی نہیںکرنی دنیا بزدلوں کے لیے نہیں بنی۔ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول رائج ہے۔ یہ جنگل کا قانون ہے جسے حضرت انسان نے بھی متمدن، مہذب اور آئین اور قانون پرست ہونے کے باوجود اختیار کر لیا ہے۔ برصغیر میں بھارت لاٹھی سے ہانکنے میں کامیاب دکھائی دیتا ہے، اس نے بزور طاقت پاکستان کو دو لخت کیا۔ اب مودی کے کل بھوشنوں کا لشکر حرکت میں ہے اگر ہم نے بھارت کے خلاف جہاد کے لیے صرف کشمیریوں پر انحصار جاری رکھا تو ان بے گناہوں کا ہی خون ہوتا رہے گا اس پر قومی مباحثہ ہونا چاہیے کہ کشمیر ہمیں کیسے ملے گا۔
امریکی جریدے بلوم برگ نے اپنی حالیہ اشاعت میں بھارت کی اصل صورتحال بے نقاب کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ بھارت پر نظریاتی جنونیوں کی حکومت ہے جس پر تنقید کرنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں متنازع شہریت بل پر شدید ہنگامہ ہوا کانگریسی رہنماء ششی تھرور نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے شہریت ترمیمی بل کی منظوری گاندھی پر قائداعظم محمدعلی جناح کی سوچ کی جیت ہے۔ انہوں نے بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مجوزہ بل بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کیخلاف جاتا ہے۔ اگر یہ بل منظور ہوگیا تو گاندھی پر قائداعظم کے افکار کی جیت ہوگی۔ لوک سبھا میں اس متنازع شہریت بل کی منظوری کے بعد بھارت کے مختلف شہروں میں مظاہروں اور ہنگاموں کا سلسلہ جاری ہے اور مظاہرین مودی سرکار کیخلاف زبردست نعرے بازی کررہے ہیں۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں آسام‘ تریپورہ اور میگھالا میں مظاہروں کے علاوہ رات کو مشعل بردار جلوس بھی نکالے گئے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق بھارتی طلبہ کی جانب سے بھی متنازع شہریت بل کو مسترد کر دیا گیا ہے اور آل موران طلبہ یونین نے 48 گھنٹے کی ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ اسی طرح مظاہروں کے دوران سڑکوں پر گاڑیوں کے ٹائر جلتے نظرآرہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس بل کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ ہم لوک سبھا میں متنازع شہریت سے متعلق قانون سازی کی شدید مذمت کرتے ہیں اس بل کا منظور کیا جانا انسانی حقوق کے تمام قوانین اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے یہ توسیع پسندی دراصل آر ایس ایس کے ہندو راشٹرا ڈیزائن کا ایک حصہ ہے جسے فاشسٹ مودی سرکار کے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی حوالے سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی ڈاکٹر شیریں مزاری کی پیش کردہ ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں مودی سرکار سے متذکرہ متنازع بل واپس لینے کا تقاضا کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارتی حکومت کا یہ اقدام انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی لوک سبھا سے منظور کرائے گئے متذکرہ بل کا نوٹس لیا گیا اور قرار دیا گیا کہ بھارت کے ایسے اقدامات نے اس کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ اس بل کے حوالے سے دفتر خارجہ پاکستان کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ قانون سازی ہندو راشٹرا کے تصور کو عملی شکل دینے کی طرف ایک بڑا قدم ہے جو مذہب کی بنیاد پر ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا واضح اظہار ہے جسے ہم قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں۔