کراچی (رپورٹ: محمد انور) کراچی کو سخت سیکورٹی ویجیلنس کے مطابق بنانے کے لیے سی سی ٹی وی کا منصوبہ ایک بار پھر التواء کا شکار ہوگیا۔ وزیراعلیٰ کی دلچسپی کے باوجود سندھ پولیس منصوبے پر تیزی دکھانے کے بجائے سستی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت شہر کے مختلف علاقوں 25 ہزار کیمرے نصب کرنے ہیں۔ جبکہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر 2016ء میں 10 ہزار کیمروں کی تنصیب کا پروجیکٹ بنایا گیا تھا۔ جس پر 3 سال گزرنے کے باوجود عمل نہیں ہوسکا تھا جس کے بعد اس منصوبے کو 25 ہزار
کیمروں کی تنصیب تک توسیع دی گئی۔ لیکن تازہ فیصلے پر بھی عمل درآمد نہیں ہورہا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک بار پھر محکمہ داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے جلد ہی پی سی ون بناکر پیش کیا جائے۔ مجوزہ نئے منصوبے کے تحت ان کیمروں کی تنصیب کا دائرہ اب ملیر ہالٹ سے قائدآباد اور کورنگی کراسنگ تک بڑھایا جانا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ کیمروں کی خریداری کا ہے۔ 3 سال کے دوران سندھ پولیس یہ بھی طے نہیں کرسکی کہ کتنے پکسل کے کیمرے خریدنے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شروع ہوکر بھی ایک سال سے زاید عرصہ گزر گیا۔ خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ نے ستمبر 2016ء میں شہر کے 2 ہزار مقامات پر فوری طور پر10 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم دیا تھا تاکہ دہشت گردی سمیت دیگر ناخوشگوار واقعات میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کیا جاسکے۔ اس منصوبے پر مسلسل تاخیر کے باعث نمائندہ جسارت نے معلومات حاصل کی تو منصوبے کی کنسلٹنٹ فرم ایس آئی گلوبل کے سی ای او نعمان احمد نے بتایا کہ منصوبے کے لیے کنسلٹنسی ورک مکمل ہوچکا ہے ، ان کی جانب سے کسی قسم کی تاخیر نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منصوبے پر عمل درآمد میں تاخیر کی وجہ سندھ پولیس یا دیگر متعلقہ حکومتی افسران ہی بتاسکتے ہیں۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ان سیکورٹی کیمروں کی جلد سے جلد تنصیب کے لیے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کم از کم 4 مرتبہ احکامات جاری کرچکے ہیں اور مسلسل دلچسپی لے رہے ہیں جبکہ سیکرٹری داخلہ قاضی عبدالکبیر بھی شہر میں عدالت عظمیٰ اور وزیراعلیٰ کے حکم پر سیکورٹی کیمروں کی تنصیب کے سلسلے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں مگر پولیس حکام کی جانب سے تاخیر کی وجوہات نہیں بتائی جارہی ہے۔ خیال رہے کہ سندھ حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کیمرے لگانے کے مقامات کی نشاندہی بھی کی جاچکی ہے لیکن حساس نوعیت کے پروجیکٹ کے باعث سندھ پولیس نے ایک وسیع کمیٹی تشکیل دے کر اس سے حتمی رپورٹ طلب کی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کمیٹی بنے ہوئے بھی 3 سال گزر چکے ہیں۔ مگر کمیٹی نے بھی اپنا ٹاسک پورا نہیں کیا۔ یہ کمیٹی ہوم سیکرٹری سندھ نے 17 ستمبر 2017 ء کو تشکیل دی تھی کمیٹی کا چیئرمین ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ سندھ کو بنایا گیا تھا۔کمیٹی میں ڈی آئی جی آئی ٹی ، ڈائریکٹر آئی ٹی سندھ پولیس ، محکمہ داخلہ ، محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک ایک نمائندہ اور کنسلٹنٹ فرم ایس آئی گلوبل کا نمائندہ شامل ہے۔ کمیٹی کو 15 دن میں رپورٹ دینی تھی جس کے بعد اس پروجیکٹ کا پی سی ون بنایا جانا تھا۔ مگر ایڈیشنل آئی جی سندھ کی نگرانی میں قائم اس کمیٹی نے 3 سال بعد بھی اپنا کام مکمل نہیں کرسکی جبکہ اس دوران ایڈیشنل آئی جی کی پوسٹ پر تعینات 4 افسران تبدیل بھی کیے جاچکے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ان دنوں شہر کے صرف 150 مقامات پر 22 سو سیکورٹی کیمرے نصب ہیں جبکہ ضلع ملیر اور کورنگی کے بیشتر مقامات کیمروں کے ذریعے سیکورٹی ویجیلنس سے مبرا ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے 2016ء کے حکم میں اسکول، مدارس، کاروباری مراکز، مساجد و دیگر عبادت گاہوں کے قریب کیمرے نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔