کتا مار مہم چلانے کا حکم

331

سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ صوبے میں آوارہ کتوں کے خاتمے کے لیے پرانے طریقہ کار پر ہی عمل کیا جائے یعنی کتوں کو مار کر تلف کردیا جائے ۔ نئے طریقہ کار کے تحت حکومت سندھ اور بلدیاتی ادارے آوارہ کتوں کو مارنے کے بجائے انہیں انجکشن لگارہے تھے تاکہ وہ بانجھ ہوجائیں اور کتوں کی نسل نہ بڑھ سکے ۔ اسی طرح انہیں ریبیز کے انجکشن بھی لگارہے تھے تاکہ جس کسی کو وہ کتے کاٹیں ، اس کو ریبیز کی بیماری نہ ہو ۔ اسی طرح اسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین بھی بڑے پیمانے پر فراہم کرنے کے اقدامات کیے جارہے تھے ۔ اس سارے طریقہ کار میں انتہائی گڑبڑ تھی۔ سب سے اہم بات تو یہی تھی کہ کتوں کو انجکشن لگانے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ راہ گیروں پر حملے نہیں کریں گے اور انہیں نہیں کاٹیں گے ۔ پورے صوبے میں آوارہ کتوں کی بہتات ہوگئی ہے ۔ اتنی بڑی تعدادمیں کتوں کو انجکشن لگائے جانا نہ تو عملی طور پر ممکن تھا اور نہ ہی سندھ حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں ۔ کتوں کے کاٹنے کے واقعات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کے صرف دو اسپتالوں میںکتوں کے کاٹنے کے یومیہ ڈیڑھ سو سے دو سو واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ کچھ دن پیشتر ہی تھر کے علاقے چھاچھرو میں پرائمری اسکول کے بچوں پر آوارہ کتوں کے غول نے حملہ کردیا تھا جس میں گیارہ بچے شدید زخمی ہوئے تھے ۔ لاڑکانہ کے چھ سالہ بچے حسنین کی موت ریبیز سے نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ کتے کے کاٹنے سے اتنا شدید زخمی ہوگیا تھا کہ زخموںکی تاب نہ لاسکا ۔ اب جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے کتوں کو مارنے کی اجازت دے دی ہے ، یہ سندھ حکومت اور متعلقہ بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر کتا مار مہم شروع کریں ۔ کتا مار مہم میں تاخیر کا مطلب ہی یہ ہوگا کہ صوبے میں روز ہزاروں افراد کتوںکے کاٹنے سے زخمی ہوتے رہیں ۔ سندھ ہائی کورٹ کے اس حکم نامے کے بعد اب اگر کتے کے کاٹنے سے کوئی موت واقع ہوتی ہے تو اس کے قتل کی ایف آئی آر سندھ حکومت اور متعلقہ بلدیاتی ذمہ دار کے خلاف کٹنی چاہیے ۔ سگ گزیدگی ، ڈینگی ، ٹائیفائیڈ ، ہیپاٹائیٹس ، گیسٹرو جیسی بیماریوں کو آفت قرار دیا جانا چاہیے اور ان سب بیماریوں کے خلاف جنگی بنیادوں پر مہم بھی چلانے کی ضرورت ہے ۔ سندھ حکومت اور بلدیہ کراچی کی کارکردگی کا تو یہ عالم ہے کہ وہ اب تک کراچی سے کچرا اور سڑکوں پر پھیلی ریت کی صفائی نہیں کرسکے ۔ سڑکوں پر موجود دھول چلتی گاڑیوں کی وجہ سے اڑنے کی بناء پر کراچی کا شمار دنیا میں فضائی طور پر آلودہ ترین شہروں میں ہونے لگا ہے ۔ بہتر ہوتا کہ سندھ ہائی کورٹ کتوں کے خاتمے کے لیے سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کو کوئی ڈیڈلائن دیتی اور اس سلسلے میں کسی فوکل پرسن کا تقرر کرتی ۔ کتوں کے حملے اتنے اہم ہیں کہ اس سلسلے میں سماجی تنظیموں کو بھی آگے بڑھنا چاہیے اور اپنا کرداربھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہیے ۔